رسائی کے لنکس

اسرائیلی وفد کی سعودی عرب آمد: کیا دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پرآنے والے ہیں؟


سعودی یونیسکو کلچر ہیریٹیج اجلاس میں اسرائیل کی شرکت
سعودی یونیسکو کلچر ہیریٹیج اجلاس میں اسرائیل کی شرکت

ایک اسرائیلی وفد نے ریاض میں پیر کے روز ہونے والے یونیسکو اجلاس میں شرکت کی۔ اسرائیلی وفد کا یہ دورہ سعودی عرب کے پہلے اعلانیہ دورے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں۔

ایک اسرائیلی اہل کار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پانچ ارکان پر مشتمل یہ وفد اتوار کو میٹنگ کے لیے پہنچا۔اس اجلاس کا مقصد یونیسکو کے ثقافتی اور تاریخی مقامات سے متعلق عالمی ورثے کی فہرست کو اپ ڈیٹ کرنا ہے۔

اہل کار نے بتایا کہ ’’ ہمیں یہاں آ کر خوشی ہوئی ہے۔ یہ ایک اچھا پہلا قدم ہے۔‘‘ اس اسرائیلی اہل کار نے دورے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’’ہم یونیسکو اور سعودی حکام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘‘

اہل کار نے بتایا کہ ٹیم نے دبئی کے راستے سفر کیا ہے کیونکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست پروازوں کا سلسلہ نہیں ہے اور ان کی ٹیم اتوار کوسعودی عرب پہنچی ہے ۔انہوں نے اپنے ویزے اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم یونیسکو کے ذریعے حاصل کیے ہیں ۔

اس وفدمیں ایک سیکورٹی اہل کار بھی شامل ہےجس نے پیر کے روز یونیسکو کے اجلاس میں شرکت کی۔ ان کی میز کے سامنے ’’اسرائیل‘‘ کا سائن رکھا گیا تھا۔اہل کار نے کہا کہ ان کا یہ دورہ "بہت اچھا رہا ۔ ہمارے ساتھ ان کا سلوک بہت عمدہ ہے۔‘‘

ریاض سعودی عرب میں یونسیکو کے ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کے 45ویں سیشن میں اسرائیلی وفد، فوٹو اے ایف پی 11 ستمبر 2023
ریاض سعودی عرب میں یونسیکو کے ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کے 45ویں سیشن میں اسرائیلی وفد، فوٹو اے ایف پی 11 ستمبر 2023

’اسرائیل ‘‘ کے لفظ نے اس اجلاس میں کام کرنے والے سعودیوں کی توجہ حاصل کی ۔ اس اجلاس میں 50 سے زیادہ مقامات عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہونے کے امیدوار ہیں۔

سپورٹ سروسز میں کام کرنے والے ایک نوجوان سعودی شخص سے جب اسرائیلی وفد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ یہ خدا کا حکم ہے۔ یہ مسئلہ ہم سے بڑا ہے اور ہم اس پر اعتراض نہیں کر سکتے۔‘‘

رکاوٹیں‘ بدستور موجود ہیں

یونیسکو کے ایک سفارت کار نے کہا کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے ریاض میں ہونے والے اس اجلاس میں اسرائیل کی شرکت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سفارت کار نےبھی اپنا نام ظاہر کرنے سے احتراز کیا اور بتایا کہ ’’ یہ آڈری ازولے کی کئی برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے کہ خطے کی تمام ریاستوں کے درمیان بات چیت کے لیے حالات کو سازگار بنایا جا سکے۔‘‘

اگرچہ اس دورے کی کوئی واضح سیاسی اہمیت تو نہیں ہے، لیکن یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ممالک کو قریب لانے سے متعلق افواہیں بڑھ رہی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق فلسطینی وفد نے گزشتہ ہفتے ریاض کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کو باضابطہ بنانے کی صورت میں آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہو گا۔

سعودی عرب میں مذہب اسلام کے دو مقدس ترین مقامات ہیں اور وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا ۔

سعودی عرب 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے ابراہیم معاہدے میں بھی شامل نہیں ہوا جس کے تحت اسرائیل نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔

خانہ کعبہ میں عقیدت گزار طواف کر رہے ہیں،فائل فوٹو۔
خانہ کعبہ میں عقیدت گزار طواف کر رہے ہیں،فائل فوٹو۔

سعودی عرب تیل پر انحصار کرنے والی اپنی معیشت کو از سر نو تشکیل دینے اور اسے بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس نے حالیہ مہینوں میں متعدد تاریخی سفارتی اقدامات کیے ہیں جن میں ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا حیران کن اقدام بھی شامل ہے ۔

خطے کے ان دو اہم ممالک یعنی ایران اور سعودی عرب کے تعلقات برسوں سے منقطع چلے آ رہے تھے۔

سعودی تجزیہ کار اور دوطرفہ تعلقات سے متعلق امور کے ماہر عزیز الغاشیان نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس دورےکا اہتمام یونیسکو نے کیا تھا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی راہ میں بدستور ’’رکاوٹیں‘‘ حائل ہیں۔

الغاشیان نے کہا کہ ’’ ممکنہ طور پر یہ اقدام سعودی عرب کی جانب سے دنیا کے ساتھ زیادہ تعلقات رکھنے کی کوشش کا نتیجہ ہےجس میں اسرائیلی بھی شامل ہوں گے۔ تاہم اسے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ تعلقات کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

الغاشیان نے کہا کہ سعودی حکام نے محسوس کیا ہے کہ اگر وہ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے ۔ ولی عہد کے وژن کے تحت مملکت کو عالمی سطح پر کاروبار اور سیاحت کے مرکز میں تبدیل کرنا ہے ۔

تجزیہ کار الغاشیان کہتے ہیں کہ ’’اسرائیلی یقینی طور پر اسے پہلے قدم کے طور پر لیں گےجب کہ حقیقت میں اس کا اہتمام یونیسکو نے کیا تھا اور اس کا تعلق ان کی سفارتی مہارت یا سفارتی فتوحات سے نہیں ہے۔‘‘

الغاشیان نے اسرائیلی وفد کے اس دورے کا موازنہ گیمرز 8 فیسٹیول کے ساتھ کیا جس میں اسرائیلی eSports کے کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی اور اس کے لیے بھی ’’تیسرے فریق کے تعاون‘‘ کی ضرورت تھی جس کا اہتمام عالمی ٹورنامنٹ کے منتظمین کی طرف سے کیا گیا تھا ۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔)

فورم

XS
SM
MD
LG