واشنگٹن —
اسرائیلی فوج نے ہتھیاروں سے لدا ایک بحری جہاز پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے جو اسرائیلی حکام کے مطابق ایران کی جانب سے فلسطینی علاقے غزہ میں سرگرم مزاحمتی تنظیم 'حماس' کو بھجوائے جارہے تھے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا ہے کہ پانامہ سے تعلق رکھنے والے مال بردار جہاز 'کلوس – سی' کو چند روز قبل اسرائیلی بحریہ نے افریقی ممالک سوڈان اور اریٹیریا کے ساحلوں کے نزدیک بحیرۂ احمر میں بین الاقوامی حدود میں پکڑا تھا جسے اسرائیلی بندرگاہ ایلات پہنچا دیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق جہاز پر کئی درجن شامی ساختہ 'ایم – 302'' راکٹ لدے ہوئے تھے جو ایران کی جانب سے غزہ بھجوائے جارہے تھے۔
فوجی ترجمان کے مطابق اگر یہ ہتھیار 'حماس' تک پہنچ جاتے تو تنظیم غزہ سے اسرائیل کے زیادہ اندر تک راکٹ حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتی۔
خیال رہے کہ 2006ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران بھی شیعہ مزاحمتی تنظیم 'حزب اللہ' نے اسرائیلی فوج کے خلاف یہی راکٹ استعمال کیے تھے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ہتھیاروں کی یہ کھیپ کئی ماہ سے جاری انٹیلی جنس کاروائی کے نتیجے میں پکڑی گئی ہے۔
ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ ایران کی ایما پر یہ ہتھیار سیمنٹ سے بھرے کنٹینروں میں چھپا کر پہلے شام سے عراق پہنچائے گئے تھے جس کے بعد انہیں وہاں سے بحری جہاز پر لادا گیا تھا تاکہ کسی کو ان کنٹینروں پر شک نہ ہوسکے۔
اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بحری جہاز ان ہتھیاروں کو لے کر سوڈان جارہا تھا جہاں سے اسے زمینی راستے سے پہلے مصر اور پھر وہاں سے غزہ منتقل کیا جانا تھا۔ خیال رہے کہ سمندر اور اسرائیلی سے گھری غزہ کی پٹی کی ایک مختصر سی سرحد مصر سے بھی ملتی ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ جہاز کا 17 رکنی عملہ بظاہر ہتھیاروں کی موجودگی سے لاعلم تھا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں جہاز پر سوار اسرائیلی فوجیوں کو ان راکٹوں کا معائنہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو بڑے بڑے ڈبوں میں بند نظر آرہے ہیں۔
ویڈیو میں خاکی رنگ کے سیمنٹ سے بھرے تھیلے بھی دکھائی دے رہے ہیں جن پر انگریزی میں 'میڈ ان ایران' تحریر ہے۔
اسرائیل ماضی میں بھی ایران کی جانب سے حماس اور حزب اللہ کو ہتھیار فراہم کرنے کی کوششیں ناکام بنانے کا دعویٰ کرتا رہا ہے۔ ایرانی حکومت نے تاحال اس نئے الزام پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا ہے کہ پانامہ سے تعلق رکھنے والے مال بردار جہاز 'کلوس – سی' کو چند روز قبل اسرائیلی بحریہ نے افریقی ممالک سوڈان اور اریٹیریا کے ساحلوں کے نزدیک بحیرۂ احمر میں بین الاقوامی حدود میں پکڑا تھا جسے اسرائیلی بندرگاہ ایلات پہنچا دیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق جہاز پر کئی درجن شامی ساختہ 'ایم – 302'' راکٹ لدے ہوئے تھے جو ایران کی جانب سے غزہ بھجوائے جارہے تھے۔
فوجی ترجمان کے مطابق اگر یہ ہتھیار 'حماس' تک پہنچ جاتے تو تنظیم غزہ سے اسرائیل کے زیادہ اندر تک راکٹ حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتی۔
خیال رہے کہ 2006ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران بھی شیعہ مزاحمتی تنظیم 'حزب اللہ' نے اسرائیلی فوج کے خلاف یہی راکٹ استعمال کیے تھے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ہتھیاروں کی یہ کھیپ کئی ماہ سے جاری انٹیلی جنس کاروائی کے نتیجے میں پکڑی گئی ہے۔
ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ ایران کی ایما پر یہ ہتھیار سیمنٹ سے بھرے کنٹینروں میں چھپا کر پہلے شام سے عراق پہنچائے گئے تھے جس کے بعد انہیں وہاں سے بحری جہاز پر لادا گیا تھا تاکہ کسی کو ان کنٹینروں پر شک نہ ہوسکے۔
اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بحری جہاز ان ہتھیاروں کو لے کر سوڈان جارہا تھا جہاں سے اسے زمینی راستے سے پہلے مصر اور پھر وہاں سے غزہ منتقل کیا جانا تھا۔ خیال رہے کہ سمندر اور اسرائیلی سے گھری غزہ کی پٹی کی ایک مختصر سی سرحد مصر سے بھی ملتی ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ جہاز کا 17 رکنی عملہ بظاہر ہتھیاروں کی موجودگی سے لاعلم تھا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں جہاز پر سوار اسرائیلی فوجیوں کو ان راکٹوں کا معائنہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو بڑے بڑے ڈبوں میں بند نظر آرہے ہیں۔
ویڈیو میں خاکی رنگ کے سیمنٹ سے بھرے تھیلے بھی دکھائی دے رہے ہیں جن پر انگریزی میں 'میڈ ان ایران' تحریر ہے۔
اسرائیل ماضی میں بھی ایران کی جانب سے حماس اور حزب اللہ کو ہتھیار فراہم کرنے کی کوششیں ناکام بنانے کا دعویٰ کرتا رہا ہے۔ ایرانی حکومت نے تاحال اس نئے الزام پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔