شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ہر سال دنیا بھر میں سات ارب سے زیادہ نر چوزے انڈے سے نکلنے کے ایک دو روز کے اندر ہی مار دیے جاتے ہیں۔ پولٹری فارم والے ان کا قصور یہ بتاتے ہیں کہ وہ نہ تو انڈے دیتے ہیں اور نہ ہی ان کا گوشت کھانے کے قابل ہوتا ہے اس لیے انہیں پالنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
لیکن اب کم از کم اسرائیل میں نر چوزوں کی جان بخشی کچھ یوں ہونے والی ہے کہ سائنس دانوں نے ایک ایسی ٹیکنالوجی دریافت کی ہے جس سے انڈوں سے صرف مادہ چوزے ہی پیدا ہوں گے۔یعنی نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسریا۔
اسرائیل کے سائنس دانوں نے مرغیوں کی ایک ایسی نسل تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جن کے انڈوں سے صرف مادہ چوزے ہی پیدا ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مرغیوں یہ نسل عام ہونے سے سالانہ کم ازکم سات ارب ڈالر کی بچت ہو گی کیونکہ ایک نوزائیدہ چوزے کو ہلاک کرنے پر تقریباً ایک ڈالر کا خرچ اٹھتا ہے۔
بہت کم لوگوں کو یہ پتا ہو گا کہ دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں انڈوں سے چوزے نکلنے کے فوراً بعد نر اور مادہ کی شناخت کر کے انہیں الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ مادہ چوزے پولٹری فارم والے خرید لیتے ہیں جب کہ نر چوزوں کو مختلف طریقوں سے اجتماعی طور پر ہلاک کر دیا جاتا ہے کیونکہ کوئی ان کا خریدار نہیں ہوتا۔ جب کہ ترتی پذیر ملکوں عموماً ا یسا نہیں ہوتا۔
بہت عرصہ پہلے تک تو نر چوزوں کو پولٹری فارم کے کارکن گلی محلوں میں بیچ جاتے تھے اور سادہ لوگ اس خوشی فہمی میں خرید لیتے تھے کہ سردیوں میں انڈے کھائیں گے۔ لیکن جب سردیوں کے آغاز سے پہلے ہی وہ بلوغت کو پہنچنے پر صبح منہ اندھیرے پر پھٹپھڑا کراور گردن اٹھا کر زور سےککٹروں کو کرنے لگتے تھے تو لوگ غصے میں انڈوں کی بجائے انہیں ہی ذبح کر کے کھا جاتے تھے۔
بات ترقی یافتہ ملکوں کی ہو رہی ہے ۔ وہ انڈہ دینے والی مرغیوں کے نر نہیں کھاتے۔ اس لیے وہ بے چارے اکثر صورتوں میں تو بھوکے پیاسے ہی مار دیے جاتے ہیں کیونکہ ان کی خوراک پر خرچ کو رقم کا زیاں سمجھا جاتا ہے۔
نر چوزوں کو محض مالی فائدے کے لیے ہلاک کرنا ایک وحشیانہ عمل ہے اور دنیا بھر میں جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں اس کے خلاف ایک عرصے سے آواز اٹھا رہی ہیں جس کا اب کچھ کچھ اثر ہونا شروع ہو گیا ہے ۔
کئی یورپی ملکوں نے نر چوزوں کو مارنے پر پابندی لگا دی ہے۔ جرمنی میں یہ پابندی اس سال لگی ہے، جب کہ فرانس میں بھی آنے والے دنوں میں اس پابندی پر عمل ہونے والا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس پابندی کے بعد پولٹری فارم ان نر چوزوں کو کب تک پالے پوسیں گے جن سے نہ انڈے مل سکتے ہیں اور نہ ہی جن کا گوشت صارفین خریدنے پر تیار ہیں۔کیونکہ انہیں پالنا بظاہر سالانہ اربوں ڈالر کے خسارے کا سودا ہے۔
اسرائیلی سائنس دانوں کی نئی دریافت کو اس مشکل کے ایک اہم حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی زرعی تحقیق کے ادارے کے ’والکینی سینٹر‘ نے کہا ہے کہ اس نے جینیاتی ٹیکنالوجی کے استعمال سے مرغیوں کی ایک ایسی نسل تیار کی ہے جس کے انڈوں سے صرف مادہ چوزے ہی پیدا ہوں گے جو بڑے ہو کر انڈے دیں گے، بانگیں نہیں۔
والکینی سینٹر کے سائنس دانوں کا استد لال ہے کہ فی الوقت نرچوزوں کو بے رحمی سے ہلاک کیے جانے سے بچانے کا واحد قابل عمل راستہ یہی ہے کہ انہیں پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے۔
مرغیوں کی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نسل کی تیاری پر کام کرنے والی سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ یوول سینامون ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹیکنالوجی یہ شناخت کرتی ہے کہ انڈے میں جانے والے جنین نرکو جنم دیں گے یا مادہ کو۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی تحقیق کے حوصلہ افزا نتائج حاصل کرنے میں سات سال لگے ہیں۔ اس تحقیق میں ان کے ساتھ قابل بھروسہ دیر پا خوراک پر کام کرنے والی ایک امریکی اسرائیلی کمپنی ہومین بھی شامل تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ نراور مادہ چوزے پیدا کرنے والے جنین کی شناخت کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بعد ان کی ٹیم نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایسی مرغیوں کی نسل تیار کرنے پر کام شروع کیا جو انڈے میں صرف مادہ جینز کی ہی نشوونما کرے اور نر جنین کو رد کر دے۔
سینامون کی ٹیم کی تحقیق کو سادہ لفظوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ بارآور ہونے کے بعد نرجنین کی پرورش کا راستہ رک جاتا ہے اور مادہ جنین ہی انڈے میں پروان چڑھتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کے کئی فوائد ہیں۔ اس سے نہ صرف نرچوزے بے موت مارے جانے سے بچ جائیں گے بلکہ چوزے پیدا کرنے والی کمپنیوں کو اس جگہ اور اخراجات کی بھی بچت ہو گی جہاں وہ نر چوزوں کو رکھتے ہیں اور انہیں تلف کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کے تجارتی فوائد دو سال کے بعد سامنے آئیں گے جب اس کا کاروباری شعبے میں استعمال شروع ہو جائے گا۔
اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔