رمضان کا مہینہ ختم ہوا تو دنیا بھر کے مسلمانوں نے عید کی نماز اور پھر جمعے کی نماز ادا کی ۔ اٹلی میں تارکین وطن کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کی رہائش اور کام کی جگہ کے نزدیک، مسجد بھی ہو جہاں وہ نماز ادا کر سکیں۔
فلورنس میں ایک مسلمان لیڈر نے اعلان کیا ہے کہ وہ آنے والے ہفتوں میں حکام کے سامنے ایک مسجد کی تعمیر کا نقشہ پیش کریں گے۔ اس مسجد میں مینار بھی ہوں گے جو اٹلی کی نشاۃ ثانیہ کے دور کے آرٹسٹ Giotto کے ڈیزائن کیے ہوئے کیتھڈرل ٹاور سے ملتے جلتے ہوں گے۔ مقامی امام Izzedin Elzir کہتے ہیں کہ اسلامی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان جہاں کہیں گئے، انھوں نے وہاں کے طرز ِ تعمیر کو اپنا لیا۔ مسجد کے باہر کے ڈیزائن میں سبز اور سفید مرمر استعمال کیا جائے گا۔ شہر کے بہت سے مشہور چرچوں اور تاریخی عمارتوں میں بھی یہ ڈیزائن اور پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کے نقشے کو مقامی طور پر کافی پسند کیا گیا ہے اور مسیحی کمیونٹیوں کی طرف سے حمایت کے پیغام بھی ملے ہیں۔
لیکن تارکین وطن کی مخالف ناردرن لیگ کے لیڈروں نے مسجد کی تعمیر کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجدوں سے معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہو گا۔ بعض لوگوں نے مسجد کی تعمیر پر ریفرنڈم کرانے کی تجویز پیش کی ہے۔
اس دوران ، شمالی اٹلی کے شہر ملان میں، شہر کے حکام کی طرف سے مسجد کی تعمیر کی اجازت نہ ملنے پر، ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ ملان میں اور اس کے مضافات میں ہزاروں مسلمان آباد ہیں۔
ملان کے آرچ بشپ، Dionigi Tettamanzi نے شہر کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ شہر میں مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دیں۔ انھوں نے کہا کہ شہری اداروں پر لازم ہے کہ وہ سب کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیں اور مسلمانوں کو بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملان کے شہری حکام اس مشورے پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ Mattero Salvini یورپی پارلیمنٹ ناردرن لیگ کے ڈپٹی ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ لیگ کا موقف یہ ہے کہ ملان میں مسجد کی تعمیر شہر کے حکام کی ترجیح نہیں ہے۔ اس وقت شہر میں ایسے کوئی قابل اعتبار مسلمان نمائندے موجود نہیں ہیں جن کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کی جا سکے۔ اس لیے ملان میں مسجد کوئی توجہ طلب معاملہ نہیں ہے‘‘۔
عبد الحامد شری ملان میں اسلامک کلچرل سینٹر چلاتے ہیں جس کے ساتھ پہلے ایک مسجد بھی منسلک تھی۔ ماضی میں، ہزاروں لوگ سڑک پر بھی نماز ادا کیا کرتے تھے، لیکن حکومت نے دو برس قبل اس پر پابندی لگا دی۔ انھوں نے مسجد بھی بند کردی اور کہا کہ اس سے امن عامہ میں خلل پڑتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مسجد دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔ وہاں نماز پڑھنے والے کئی مسلمانوں کو دہشت گردی کی غیر قانونی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتارکر لیا گیا۔ اب مسلمان ایک بار پھر ایک غیر قانونی مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہیں جو در اصل ایک گیراج ہے اور شری کہتے ہیں کہ شہر میں اور بہت سے مقامات پر اسی طرح نماز پڑھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق’’یہ جگہیں نماز کے لیے نہیں ہیں۔ یہ گودام ہیں، گیراج ہیں، انڈر گراؤنڈ علاقے ہیں۔ ہم نے انہیں اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ یہ جگہیں نمازیوں کے لیے بالکل نا کافی ہیں۔
ملان میں ایک لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ ناردرن لیگ کے ڈپٹی ، Salvini کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی نمازوں کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں، ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے، یعنی پانچ فیصد سے بھی کم ۔ ان کا اصرار ہے کہ ملان میں ایک نئی اور بڑی مسجد بنانے کا سوال ملان کے لوگوں کے لیے اور اسلامی کمیونٹی کے لیے بالکل غیر ضروری ہے‘‘ ۔