رسائی کے لنکس

الیکشن جیتنے کے لیے جیل جانا پڑے گا


نواز شریف ہائیکورٹ میں اپیل کے ساتھ ضمانت کی درخواست دے سکتے ہیں لیکن پہلے گرفتاری دینا پڑے گی

ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے پر سیاسی حلقوں نے کسی حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن کیا وہ الیکشن سے پہلے وطن واپس آئیں گے یا نہیں، اس بارے میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ مسلم لیگ ن، اس کی قیادت اور رہنماؤں کو ایک عرصے سے ہدف بنایا جارہا ہے۔ اس فیصلے کا اعلان آج کیا گیا ہے لیکن سزا ایک سال پہلے ہی دی جاچکی تھی۔ پیغام یہ دیا جارہا ہے کہ سر جھکاؤ ورنہ تمھیں نہیں چھوڑیں گے۔ فیصلہ جتنی بار تبدیل ہوا اس سے اندازہ لگالیں کہ کون کررہا ہے، کیا کررہا ہے۔ نواز شریف مظلوم ہیں اور پاکستان کے عوام نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے۔ الیکشن میں اس کا جواب مل جائے گا۔

تحریک انصاف کے رہنما اور قانون داں بابر اعوان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں نواز شریف نے قطری خط پیش کیا تھا لیکن ٹرائل کورٹ میں انھوں نے اپنی صفائی دینے سے انکار کردیا تھا۔ انھوں نے تعاون نہیں کیا اور عدالت کے سامنے صرف ایک ورژن تھا اس لیے یہی فیصلہ ہونا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انھیں کم سزا دی گئی ہے۔ انھیں چودہ سال قید کے علاوہ جرمانہ بھی زیادہ کرنا چاہیے تھا۔

بابر اعوان نے بتایا کہ برطانیہ کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ ہے اس لیے وہاں کی حکومت سے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے درخواست کی جاسکتی ہے۔ منی لانڈرنگ سے متعلق برطانیہ کے اپنے قوانین بھی کافی سخت ہیں۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کا الیکشن برباد ہوگیا ہے۔

ماہر قانون اور اینکرپرسن منیب فاروق کہتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی منی ٹریل نہیں دے پائی بلکہ نیب بھی ان کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں دے سکا لیکن چونکہ نیب قانون کے مطابق ایسے مقدمے میں شواہد پیش کرنے کی ذمے داری ملزم پر ہوتی ہے اس لیے فیصلہ قانون کے مطابق درست ہے۔ انھوں نے بتایا کہ نواز شریف ہائیکورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں اور ان کی سزا معطل ہوسکتی ہے۔ وہ ضمانت کی درخواست بھی دے سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے انھیں گرفتاری دینا پڑے گی کیونکہ انھیں سزا سنائی جاچکی ہے اور گرفتاری کا حکم دیا جاچکا ہے۔

سابق وزیر قانون خالد رانجھا اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ نواز شریف کے وکلا ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں ان کے حق میں نئے شواہد پیش کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شواہد پیش کرنے کی جگہ ٹرائل کورٹ تھی۔ اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کی گئی تو صرف یہ دیکھا جائے گا کہ مقدمے کی کارروائی درست ہوئی یا نہیں۔ اب جوہری طور پر تبدیلی ممکن نہیں۔

انھوں نے کہا کہ نواز شریف کے پاس اپیل کرنے کے لیے تیس دن ہیں جبکہ الیکشن میں بیس دن رہ گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ الیکشن کے بعد اپیل کریں گے۔ اس دوران اس فیصلے پر ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

ممتاز کالم نگار عطا الحق قاسمی کا خیال ہے کہ فیصلہ یہی متوقع تھا اور تمام لوگ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ لیکن اس کے باوصف یہ متنازع فیصلہ ہے کیونکہ تمام قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ مسلم لیگ ن کے کارکن ایسے فیصلے سے بددل ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ الیکشن میں کچھ نہ کچھ تو فرق پڑے گا لیکن مسلم لیگ ن پنجاب میں اکثریت حاصل کرلے گی۔

عطا الحق قاسمی نے نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ لندن میں بیٹھ کر سیاست کا ارادہ نہ کریں۔ عملی سیاست میں بہت کچھ سہنا پڑتا ہے اور مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ انھیں وطن واپس آجانا چاہیے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے الیکشن سے پہلے وطن واپس آنے اور جیل جانے کا فیصلہ کیا تو سیاست کا نقشہ پلٹ جائے گا۔ لیکن وہ واپس نہ آئے تو مسلم لیگ ن کو انتخابات میں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

XS
SM
MD
LG