جاپان نے مشرقِ وسطیٰ کی کشیدہ صورتِ حال اور اپنے تیل بردار بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے بحری جنگی ہیلی کاپٹر اور نگران طیارے مشرقِ وسطیٰ بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جاپان کو 90 فی صد تیل کی ترسیل مشرقِ وسطیٰ کی آبی گزرگاہوں سے ہوتی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جاپان کی حکومت نے جمعے کو اس اقدام کی منظوری دی ہے۔ جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ کی آبی گزرگاہوں میں جاپانی جہازوں کی آمد و رفت کا تحفظ بتایا جاتا ہے۔
جاپانی حکام کے مطابق یہ جنگی جہاز کسی بھی ہنگامی صورتِ حال یا خطرے کے پیش نظر جاپانی وزیرِ دفاع کی منظوری کے بعد کارروائی کر سکیں گے۔
یہ جنگی طیارے خلیج عمان، شمالی بحیرہ عرب اور خلیج عدن میں تعینات کیے جائیں گے۔ تاہم آبنائے ہرمز میں اُنہیں تعینات نہیں کیا جائے گا۔
جاپانی حکومت کے مطابق نگرانی کرنے والے دو پی تھری سی طیارے آئندہ ماہ مشرقِ وسطیٰ بھجوا دیے جائیں گے۔ البتہ جنگی ہیلی کاپٹر فروری میں بھجوائے جائیں گے۔
اس خطے میں مئی اور جون میں بین الاقوامی تجارتی جہازوں پر متعدد حملے ہوئے تھے جن میں جاپانی ملکیت والا ٹینکر 'کوکوکا' بھی شامل تھا۔
امریکہ نے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا تاہم ایران ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
جاپان کو امریکہ کا اتحادی سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ جاپان نے خطے میں جہاز رانی کے تحفظ کے لیے امریکی مشن میں شامل ہونے کے بجائے اپنے طور پر حفاظتی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو آبے نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات میں ٹوکیو کے خلیج میں بحری فوج بھیجنے کے منصوبے پر بریفنگ دی تھی۔
امریکہ اور ایران کے درمیان مشرقِ وسطی کے معاملات پر کشیدگی کے باعث دنیا بھر میں تیل کی عالمی ترسیل کی ان اہم گزر گاہوں کی سیکیورٹی کو بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔
امریکہ رواں سال آبنائے ہرمز اور مشرقِ وسطیٰ کی دیگر آبی گزر گاہوں میں ہونے والی تخریب کاری کی ذمہ داری ایران پر عائد کرتا رہا ہے۔
جولائی اور اگست میں ایران نے برطانیہ اور عراق کے تیل بردار جہاز قبضے میں لے لیے تھے۔ برطانیہ کے زیرِ اثر جبل الطارق (جبرالٹر) کے حکام نے بھی ایرانی بحری جہاز تحویل میں لے لیا تھا۔
امریکہ اور مغربی ممالک ایران پر یہ الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ آبنائے ہرمز اور دیگر آبی گزر گاہوں میں سیکیورٹی کے مسائل پیدا کرتا ہے۔ امریکہ نے اس ضمن میں جنگی بیڑا اور فوجی بھی مشرقِ وسطیٰ میں تعینات کر دیے تھے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ سال 2015 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہو گئے تھے۔ صدر ٹرمپ نے عذر پیش کیا تھا کہ اس جوہری معاہدے میں کئی نقائص ہیں اور یہ اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ ایران اپنا جوہری منصوبہ ترک کر دے گا۔
امریکہ کے ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کا استثنٰی بھی ختم کر دیا تھا۔ جس کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان کشدگی مزید بڑھ گئی تھی۔