معاشرے کی کایہ پلٹنے کا عزم لیے، ہر دور اور ہر معاشرے میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کچھ کر دکھانے کی جستجو میں مگن رہتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی اس کی کئی مثالیں، کئی روپ اور کئی ایک شخصیات آج بھی موجود ہیں۔ ہر تحریک کا اپنا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے۔ لہذا، فن، فنکار، موسیقی، گائیکی، شاعری، مصوری، تحریر و تقریر۔۔۔اور رقص ۔۔ہر روپ کی تحریک کو پر عزم شخصیات نے ہمیشہ زندہ رکھا ہے۔
آواز کی دنیا میں، پاکستان کے پاپ سنگر جواد احمد نے اپنے انداز اور خیالات کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ کراچی کی بلدیہ ٹاوٴن فیکٹری کا سانحہ ہو یا ’تم ہی پاکستان ہو‘۔۔ جیسا انسانی برابری کا درس دیتا نغمہ۔۔ زبان مختلف ہے مگر فلسفہ وہی ہے۔۔۔شہری حقوق۔۔۔انسانی حقوق۔۔۔برابری کے حقوق۔
فن کی میراث کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جواد ایک ایسے فنکار ہیں جو اپنے فن کو باقاعدہ ایک مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی بات چیت میں جواد نے بتایا کہ وہ ’اپنی گلوکاری، اپنے جنون سے‘ معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔۔۔ان کا خواب یہ ہے کہ معاشرے سے ناانصافی، ظلم اور جہالت ختم کیا جائے۔۔انہیں کالج کے دور میں ہی موسیقی سے لگاؤ ہوگیا تھا۔ ان کے والدین پولیٹیکل سائنس کے استاتذہ میں سے تھے۔۔۔۔لہذا، یہیں سے جواد کو پولیٹیکل آئیڈیولوجی نے متاثر کیا۔
جواد کا کہنا ہے کہ وہ نظریاتی طور پر کافی روشن خیال ہیں۔۔۔انہیں ملکی حالات دیکھ کر اپنے جذبات کے اظہار کے لئے گلوکاری سے بہتر کوئی اور ذریعہ نظر نہیں آیا۔
وہ کہتے ہیں کہ، سیلاب کے ہاتھوں زندگی کی جنگ لڑتے اور تنگ و تاریک فیکٹریوں کی آگ میں جھلستے مزدور دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔ معاشرے کے طبقاتی فرق اور لسانی فسادات نے اندر تک دکھی کردیا ہے۔۔
ان کا کہنا ہے کہ حب الوطنی کا جذبہ سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ اس لئے، پہلے بھی کئی ملی نغمے گائے۔۔ فوجیوں کو اپنے گانوں سے جوش دلایا۔۔۔اب قوم کو یکجا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
جواد سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کے گانے کس کے لئے ہیں۔۔تو ان کا مختصر مگر جامع جواب تھا، ’عام آدمی کے لئے۔۔وہ عام آدمی جو غربت کی چکی میں پستا ہے، جو دن بھر محنت کرتا ہے اور پھر بھی بھوکا سوتا ہے۔۔بلدیہ ٹاؤن حادثے میں کسی نے ان مزدوروں کے لئے کوئی مہم نہیں چلائی لیکن میں نے گانا گایا۔ مجھے ان لوگوں کے لئے فنڈز اکٹھا کرنے میں خوشی ہوئی‘۔
اب تک شاید بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں کہ جواد بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے 12 اسکول چلا رہے ہیں، جو سب کے سب کرائے پرلیے گئے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس ذاتی زمین نہیں۔
جواد نے بتایا کہ، ’پاکستان میں کئی فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔۔ میں نے ایسے بچوں کے لئے ایک گانا گایا ’سنو بچو‘۔ جو دراصل، بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے ایک پیغام ہے۔۔ جس کا مقصد انہیں اسکول جانے کے لئے ’اکساتا‘ ہے۔۔ میں ان کے والدین سے کہتا ہوں روٹی کم کھلائیں، اسکول زیادہ بھیجیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں، جواد نے بتایا، ’سندھی، بلوچی، پٹھان۔۔۔سب ایک ہیں، سب پاکستانی ہیں۔۔۔میرا گانا کسی کو پسند آتا ہے، کسی کے دل کو چھو جاتا ہے تو میرے لئے اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔ میری ایک این جی او بھی ہے ۔۔۔انٹرنیشنل یوتھ موومنٹ۔۔۔یہ نوجوانوں کے لئے ہے، ان میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لئے ہے، انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے۔ مجھے جتنا فنڈ ملتا ہے وہ میں کسانوں کو دے دیتا ہوں، تاکہ وہ بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔ میں امن اور محبت کا پیغام لے کر چلاہوں۔۔۔دیکھئے منزل کب اور کہاں ملتی ہے۔۔‘
آواز کی دنیا میں، پاکستان کے پاپ سنگر جواد احمد نے اپنے انداز اور خیالات کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ کراچی کی بلدیہ ٹاوٴن فیکٹری کا سانحہ ہو یا ’تم ہی پاکستان ہو‘۔۔ جیسا انسانی برابری کا درس دیتا نغمہ۔۔ زبان مختلف ہے مگر فلسفہ وہی ہے۔۔۔شہری حقوق۔۔۔انسانی حقوق۔۔۔برابری کے حقوق۔
فن کی میراث کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جواد ایک ایسے فنکار ہیں جو اپنے فن کو باقاعدہ ایک مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی بات چیت میں جواد نے بتایا کہ وہ ’اپنی گلوکاری، اپنے جنون سے‘ معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔۔۔ان کا خواب یہ ہے کہ معاشرے سے ناانصافی، ظلم اور جہالت ختم کیا جائے۔۔انہیں کالج کے دور میں ہی موسیقی سے لگاؤ ہوگیا تھا۔ ان کے والدین پولیٹیکل سائنس کے استاتذہ میں سے تھے۔۔۔۔لہذا، یہیں سے جواد کو پولیٹیکل آئیڈیولوجی نے متاثر کیا۔
جواد کا کہنا ہے کہ وہ نظریاتی طور پر کافی روشن خیال ہیں۔۔۔انہیں ملکی حالات دیکھ کر اپنے جذبات کے اظہار کے لئے گلوکاری سے بہتر کوئی اور ذریعہ نظر نہیں آیا۔
وہ کہتے ہیں کہ، سیلاب کے ہاتھوں زندگی کی جنگ لڑتے اور تنگ و تاریک فیکٹریوں کی آگ میں جھلستے مزدور دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔ معاشرے کے طبقاتی فرق اور لسانی فسادات نے اندر تک دکھی کردیا ہے۔۔
ان کا کہنا ہے کہ حب الوطنی کا جذبہ سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ اس لئے، پہلے بھی کئی ملی نغمے گائے۔۔ فوجیوں کو اپنے گانوں سے جوش دلایا۔۔۔اب قوم کو یکجا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
جواد سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کے گانے کس کے لئے ہیں۔۔تو ان کا مختصر مگر جامع جواب تھا، ’عام آدمی کے لئے۔۔وہ عام آدمی جو غربت کی چکی میں پستا ہے، جو دن بھر محنت کرتا ہے اور پھر بھی بھوکا سوتا ہے۔۔بلدیہ ٹاؤن حادثے میں کسی نے ان مزدوروں کے لئے کوئی مہم نہیں چلائی لیکن میں نے گانا گایا۔ مجھے ان لوگوں کے لئے فنڈز اکٹھا کرنے میں خوشی ہوئی‘۔
اب تک شاید بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں کہ جواد بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے 12 اسکول چلا رہے ہیں، جو سب کے سب کرائے پرلیے گئے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس ذاتی زمین نہیں۔
جواد نے بتایا کہ، ’پاکستان میں کئی فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔۔ میں نے ایسے بچوں کے لئے ایک گانا گایا ’سنو بچو‘۔ جو دراصل، بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے ایک پیغام ہے۔۔ جس کا مقصد انہیں اسکول جانے کے لئے ’اکساتا‘ ہے۔۔ میں ان کے والدین سے کہتا ہوں روٹی کم کھلائیں، اسکول زیادہ بھیجیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں، جواد نے بتایا، ’سندھی، بلوچی، پٹھان۔۔۔سب ایک ہیں، سب پاکستانی ہیں۔۔۔میرا گانا کسی کو پسند آتا ہے، کسی کے دل کو چھو جاتا ہے تو میرے لئے اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔ میری ایک این جی او بھی ہے ۔۔۔انٹرنیشنل یوتھ موومنٹ۔۔۔یہ نوجوانوں کے لئے ہے، ان میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لئے ہے، انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے۔ مجھے جتنا فنڈ ملتا ہے وہ میں کسانوں کو دے دیتا ہوں، تاکہ وہ بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔ میں امن اور محبت کا پیغام لے کر چلاہوں۔۔۔دیکھئے منزل کب اور کہاں ملتی ہے۔۔‘