امریکی یہودی سرگرم کارکنوں نے سینکڑوں کی تعداد میں نیویارک کے مجسمہ آزادی کے مقام پر پرامن طور پر قبضہ کر کے اسرائیل کی غزہ میں جاری لڑائی میں جنگ بندی اور شہریوں پر بمباری کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین سیاہ رنگ کی ٹی شرٹس میں ملبوس تھے جن پر "یہودی اب جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں" یا "ہمارے نام پر نہیں" کے نعرے تحریر تھے۔
اس مظاہرے کا انتظام یہودیوں کی ایک ترقی پسند تنظیم جیوئش وائس فار پیس یعنی جے وی پی نے کیا تھا۔یہ گروپ اسرائیلی حکومت کی کئی پالیسیوں، بالخصوص فلسطینیوں سے متعلق پالیسیوں سے اختلاف رکھتا ہے۔
نیو یارک میں آزادی کے علمبردار اس تاریخی مقام پر مظاہرین کی طرف سے لائے گئے بینرز پر "پوری دنیا دیکھ رہی ہے" اور "فلسطینیوں کو آزاد ہونا چاہیے" جیسے نعرے لکھے ہوئے تھے۔
دنیا بھر میں مشہور یہ بڑا مجسمہ تانبے کابنا ہوا ہے اور نیویارک کی بندرگاہ کے داخلی راستے پر لبرٹی جزیرے پر واقع ہے۔
مظاہرے کا اہتمام کرنے والی تنظیم "جیوش وائس فار پیس" کے اہل کار جے سیپر نے ایک بیان میں کہا کہ اس یادگار میں انیسویں صدی کی یہودی شاعرہ اور یہودی پناہ گزینوں کی مددگار ایما لازارس کے مشہور الفاظ "ہمیں غزہ کے فلسطینیوں کی مدد کے لیے کارروائی کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو آزادی کا سانس لینے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔"
بیان میں لازارس کی نظم "نیو کولاسس" کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جو مجسمے پر امریکی تارکین وطن کے لیے کندہ ہے۔
مظاہرے میں شامل "انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ انڈرسٹینڈنگ" کے شرکاء نے اسرائیل پر فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام لگایا اور مطالبہ کیا کہ غزہ میں بمباری بند کی جائے۔"
خیال رہے کہ تل ابیب کا کنہا ہے کہ اس کی جنگ کا مقصد سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ آور ہونے والی عسکریت پسند تنظیم حماس کا خاتمہ ہے۔
نیویارک شہر میں ، جو کہ دنیا بھر سے امریکہ آکر آباد ہونے والے تارکین وطن کا گڑھ ہے، گزشتہ مہینے سات اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اسرائیل اور فلسطین کے حق میں کئی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
نیو یارک شہر میں تقریباً 20 لاکھ یہودی اور کئی لاکھ مسلمان بستے ہیں۔ بڑے مظاہروں کے باوجود شہر کے لوگوں نے مشرق وسطی میں جاری جنگ سے متعلق کسی بھی قسم کے تشدد سے گریز کیا ہے۔ ہر چند کہ یونیورسٹیوں میں اس مسئلے پر کشیدگی واضح ہے۔
لیکن دونوں کمیونٹیز میں لوگ مختلف آرا رکھتے ہیں۔
امریکی یہودی نوجوانوں کا ایک لبرل طبقہ امریکہ کی برسر اقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کو بھاری اکثریت سے ووٹ دیتا ہے - اس طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے اسرائیل پر سخت تنقید کی ہے۔
وہ صدر جو بائیڈن کی اسرائیل کے لیے فوجی اور سفارتی حمایت کی بھی مذمت کرتے ہیں۔
عسکریت پسند تنظیم حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل کے جنوبی حصوں پر حملے میں ایک ہزار چار سو لوگ ہلاک ہوئے تھے جس میں تل ابیب کے مطابق زیادہ تر عام شہری شامل تھے۔ اس کے علاوہ حماس نے، جسے امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، 240 کے قریب لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیل کی طرف سے جاری جوابی بمباری میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد اب 10000 سے تجاوز کر گئی ہے جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
(اس خبر میں شامل مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)
فورم