عمان —
عرب دنیا میں یہ تبدیلیوں کا دور ہے، اور بعض لوگ پوچھ رہےہیں کہ کیا اس زمانے میں بادشاہتوں کا کوئی مصرف ہے ۔ اردن کے لوگوں کے لیے ، ایک طویل عرصے تک بادشاہ ہر قسم کی نکتہ چینی سے بالا تر تھا ۔ لیکن حال ہی میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو بادشاہت کی افادیت کا سوال پھر پوچھا جانے لگا۔
حالیہ دنوں میں ، اردن کے بعض لوگوں نے ایک قدیم روایت کو توڑ دیا ہے اور وہ شاہ عبداللہ کے خلاف نعرے لگانے لگے ہیں۔
یہ احتجاج اس وقت شروع ہوئے جب حکومت نے مالی بحران سے بچنے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی قرضوں کی شرائط پوری کرنے کے لیے، بعض اشیاء کی قیمتوں میں دی جانے والی سرکاری امداد کم کر دی۔ لیکن اس کے نتیجے میں حکومت کے خلاف جسے بعض لوگ مطلق العنان بادشاہت کہتے ہیں ، ناراضگی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
بادشاہ پر تنقید صرف سڑکوں پر سرگرم کارکنوں تک محدود نہیں رہی ۔ سیاسی تجزیہ کار لابیب کم حاوی نے اردن کے ٹیلیویژن پر سوال کیا کہ کیا بادشاہ اصلاحات کے معاملے میں مخلص ہیں۔ اب ان پر فوجداری کے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔
’’یہاں حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ اہم اور حقیقی اصلاحات کے لیے لوگوں کے مطالبے کو منظور کرے، کیوں کہ یہاں تمام اختیارات خود بادشاہ کے ہاتھوں میں ہیں۔‘‘
اردن کی بادشاہت ایک صدی پہلے اس وقت وجود میں آئی تھی جب مغربی ملکوں نے علاقے کو اپنی مرضی کے مطابق کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے، تو اردن کی بادشاہت حیران کن حد تک مستحکم رہی ہے۔ اردن کے لوگ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے شاکی ہو سکتےہیں، لیکن بہت سے لوگ اب بھی بادشاہ کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔
ایک شہری محمد حاجرکہتے ہیں کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں سے زندگی مشکل ضرور ہو گئی ہے۔ لیکن وہ خدا سے امن اور سلامتی کی دعا مانگتے ہیں، اور بادشاہت قائم رہنے کے لیے دعا گو ہیں۔
اس وفاداری کے وجہ سے ہی اردن ان ہنگاموں سے دور رہا ہے جنھوں نے شام سمیت علاقے کے دوسرے ملکوں کا امن پارہ پارہ کر دیا ہے ۔ سرحد پر پناہ گزیں کیمپ، شام کے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
لیکن بعض لوگوں کو پریشانی ہے کہ بادشاہ اور ان کے مشیر ، مختصر مدت کے فائدوں کے لیے اپنی طاقت کو ضائع کر رہے ہیں۔
جنوری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے اس انتخابی قانون کی آزمائش ہوگی جس کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا مقصد با اثر اخوان المسلمون کو نقصان پہنچانا ہے۔ القدس سینٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اورائب الرانطاوی کہتے ہیں’’انھوں نے یہ انتخابی نظام منظور کیا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں اختلافات بڑھے ہیں، اورمعاشرہ مختلف گروپوں میں بٹ گیا ہے ، اور معاشرتی تشدد تک ہوا ہے۔‘‘
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لیڈر ہیر پھیر کے ذریعے اردن کے لوگوں کو مختلف گروپوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ ہیں جو ابتدا ہی سے اردن کے رہنے والے ہیں اور وہ ہیں جو فلسطینی ہیں اوراب اردن کی نصف سے زیادہ آبادی ان لوگوں پر مشتمل ہے ۔
لابیب کم حاوی کہتے ہیں’’اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ معاشرے کے دو بڑے گروپ، یعنی مشرقی اردن کے رہنے والے اور فلسطینی، متحد نہ ہونے پائیں اور حکومت کے مقابلے میں اکٹھے نہ ہو سکیں۔‘‘
کم حاوی کہتے ہیں کہ اس قیمتی لمحے میں اتحاد کو فروغ دینے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ آزادیٔ تقریر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ خاص طور سے نوجوان کارکنوں کے لیے، گذشتہ دو سال کے احتجاجوں کے دوران، اس پورے علاقے میں آزادیٔ تقریر ایک بنیادی مطالبہ رہا ہے ۔
اردن میں پر امن ، بتدریج اصلاحات کے مطالبوں کے جواب میں بادشاہت کے اندازِ فکر کا ذکر آتا ہے تو اکثر تنگ نظری کا لفظ سننے میں آتا ہے ۔
القدس سینٹر کے ڈائریکٹر الرانطاوی کہتے ہیں’’ہمارے معاشرے میں جو بحث جاری ہے اس میں اس موضوع پر بھی بات ہوتی ہے، لیکن بد قسمتی سے، میرے خیال میں، عمان میں عرب موسمِ بہار سے کچھ سبق نہیں سیکھے گئے ہیں۔‘‘
پھر بھی، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اردن کے لوگوں کو موہوم سی امید ضرور ہے کہ ان کے لیڈر ان کی بات سنیں گے اور اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے ۔
حالیہ دنوں میں ، اردن کے بعض لوگوں نے ایک قدیم روایت کو توڑ دیا ہے اور وہ شاہ عبداللہ کے خلاف نعرے لگانے لگے ہیں۔
یہ احتجاج اس وقت شروع ہوئے جب حکومت نے مالی بحران سے بچنے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی قرضوں کی شرائط پوری کرنے کے لیے، بعض اشیاء کی قیمتوں میں دی جانے والی سرکاری امداد کم کر دی۔ لیکن اس کے نتیجے میں حکومت کے خلاف جسے بعض لوگ مطلق العنان بادشاہت کہتے ہیں ، ناراضگی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
بادشاہ پر تنقید صرف سڑکوں پر سرگرم کارکنوں تک محدود نہیں رہی ۔ سیاسی تجزیہ کار لابیب کم حاوی نے اردن کے ٹیلیویژن پر سوال کیا کہ کیا بادشاہ اصلاحات کے معاملے میں مخلص ہیں۔ اب ان پر فوجداری کے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔
’’یہاں حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ اہم اور حقیقی اصلاحات کے لیے لوگوں کے مطالبے کو منظور کرے، کیوں کہ یہاں تمام اختیارات خود بادشاہ کے ہاتھوں میں ہیں۔‘‘
اردن کی بادشاہت ایک صدی پہلے اس وقت وجود میں آئی تھی جب مغربی ملکوں نے علاقے کو اپنی مرضی کے مطابق کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے، تو اردن کی بادشاہت حیران کن حد تک مستحکم رہی ہے۔ اردن کے لوگ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے شاکی ہو سکتےہیں، لیکن بہت سے لوگ اب بھی بادشاہ کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔
ایک شہری محمد حاجرکہتے ہیں کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں سے زندگی مشکل ضرور ہو گئی ہے۔ لیکن وہ خدا سے امن اور سلامتی کی دعا مانگتے ہیں، اور بادشاہت قائم رہنے کے لیے دعا گو ہیں۔
اس وفاداری کے وجہ سے ہی اردن ان ہنگاموں سے دور رہا ہے جنھوں نے شام سمیت علاقے کے دوسرے ملکوں کا امن پارہ پارہ کر دیا ہے ۔ سرحد پر پناہ گزیں کیمپ، شام کے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
لیکن بعض لوگوں کو پریشانی ہے کہ بادشاہ اور ان کے مشیر ، مختصر مدت کے فائدوں کے لیے اپنی طاقت کو ضائع کر رہے ہیں۔
جنوری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے اس انتخابی قانون کی آزمائش ہوگی جس کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا مقصد با اثر اخوان المسلمون کو نقصان پہنچانا ہے۔ القدس سینٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اورائب الرانطاوی کہتے ہیں’’انھوں نے یہ انتخابی نظام منظور کیا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں اختلافات بڑھے ہیں، اورمعاشرہ مختلف گروپوں میں بٹ گیا ہے ، اور معاشرتی تشدد تک ہوا ہے۔‘‘
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لیڈر ہیر پھیر کے ذریعے اردن کے لوگوں کو مختلف گروپوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ ہیں جو ابتدا ہی سے اردن کے رہنے والے ہیں اور وہ ہیں جو فلسطینی ہیں اوراب اردن کی نصف سے زیادہ آبادی ان لوگوں پر مشتمل ہے ۔
لابیب کم حاوی کہتے ہیں’’اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ معاشرے کے دو بڑے گروپ، یعنی مشرقی اردن کے رہنے والے اور فلسطینی، متحد نہ ہونے پائیں اور حکومت کے مقابلے میں اکٹھے نہ ہو سکیں۔‘‘
کم حاوی کہتے ہیں کہ اس قیمتی لمحے میں اتحاد کو فروغ دینے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ آزادیٔ تقریر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ خاص طور سے نوجوان کارکنوں کے لیے، گذشتہ دو سال کے احتجاجوں کے دوران، اس پورے علاقے میں آزادیٔ تقریر ایک بنیادی مطالبہ رہا ہے ۔
اردن میں پر امن ، بتدریج اصلاحات کے مطالبوں کے جواب میں بادشاہت کے اندازِ فکر کا ذکر آتا ہے تو اکثر تنگ نظری کا لفظ سننے میں آتا ہے ۔
القدس سینٹر کے ڈائریکٹر الرانطاوی کہتے ہیں’’ہمارے معاشرے میں جو بحث جاری ہے اس میں اس موضوع پر بھی بات ہوتی ہے، لیکن بد قسمتی سے، میرے خیال میں، عمان میں عرب موسمِ بہار سے کچھ سبق نہیں سیکھے گئے ہیں۔‘‘
پھر بھی، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اردن کے لوگوں کو موہوم سی امید ضرور ہے کہ ان کے لیڈر ان کی بات سنیں گے اور اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے ۔