ہزاروں کی تعداد میں شادمان شامی شہری ہفتے کو منبج کے شہر واپس آئے جہاں سے ایک دن قبل ہی امریکہ کے حمایت یافتہ جنگجوؤں نے داعش کے انتہاپسندوں کو نکال باہر کیا تھا۔
منبج شہر ترکی کی سرحد کی قریب واقع ہے اور یہ داعش کا ایک مضبوط گڑھ تھا۔
کردستان 24 ٹیلی ویژن چینل کی طرف سے نشر کی گئی وڈیوز میں کئی گاڑیاں ملبے سے اٹی سڑکوں پر اپنے راستے بناتے ہوئے نظر آئیں۔ جس کے بعد دیہی علاقوں سے واپس آنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کا ہجوم نظر آیا۔
اس موقع پر لوگ مسرور تھے اور انہوں نے اپنی داڑھایاں منڈوا دیں اور عورتوں نے اپنے کالے رنگ کے نقابوں کو جلا دیا۔ ان دونوں چیزوں کی پابندی کرنا اس وقت لازم تھا جب داعش کے جنگجو شہر پر قابض تھے۔
خواتین نے شام کی ڈیموکریٹک فورسز کے جنگجوؤں کو خوش آمدید کہا جبکہ کئی لوگ سگریٹ نوشی کرتے نظر آئے کیونکہ قبل ازیں انتہا پسندوں کی طرف سے یہاں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد تھی۔
کئی بچے ان مناظر کو اپنے کیمروں میں بھی محفوظ کرتے نظر آئے۔
شام کی ڈیموکریٹک فورسز سے منسلک ایک مقامی فوجی کونسل کے ترجمان نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ " آج پہلا دن ہے جب زندگی معمول پر واپس آرہی ہے۔"
انتہا پسندوں نے جمعہ کو یہ شہر چھوڑ کر داعش کے زیر کنٹرول سرحدی قصبے جرابلس کی طرف پسپائی اختیار کی۔
منبج داعش کے شام میں گڑھ رقہ کے لیے سپلائی روٹ کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس علاقے کا داعش کے ہاتھوں سے نکل جانا انتہا پسندوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جو شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر اپنی نا م نہاد خلافت قائم کرنا چاہتے تھے۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب منبج انتہا پسندوں کے کنٹرول میں تھا تو اس وقت اس شہر کو غیر ملکی جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔