اسلام آباد کی سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے فردِ جرم کی کارروائی بھی مؤخر کر دی ہے۔
جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ 30 مارچ کو کیس کے قابلِ سماعت ہونے پر وکلا کو دلائل کا موقع دیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 30 مارچ کو عمران خان کی حاضری لازمی ہو گی، لیکن اس روز دیکھیں گے کہ صورتِ حال کیا ہوتی ہے۔
اسلام آباد میں جلاؤ گھیراؤ، لاٹھی چارج اور شیلنگ
سابق وزیرِاعظم عمران خان توشہ خانہ کیس میں پیشی کے لیے قافلے کی صورت میں اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس کے باہر موجود پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوا جس کے بعد پولیس نے متعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کشیدہ صورتِ حال کے باعث ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے حاضری لگوانے کے بعد عمران خان کو واپس جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد عمران خان واپس لاہور کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق کارکنوں کے پتھراؤ کے بعد پولیس نے شیلنگ کی ہے جب کہ کئی کارکنوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ تحریکِ انصاف نے الزام لگایا ہے کے شبلی فراز اور مراد سعید سمیت دیگر پارٹی رہنماؤں کو بھی لاٹھیاں لگیں۔
عمران خان کی عدالت سے واپسی کے بعد بھی پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں اور اس دوران مشتعل مظاہرین نے پولیس کی گاڑیاں بھی نذرِ آتش کر دیں۔
مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان مختلف مقامات پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور آنسو گیس کی شدید شیلنگ بھی کی گئی۔ مشتعل مظاہرین نے کئی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔
آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ایک پولیس چوکی بھی نذرِ آتش کر دی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کا قافلہ پرامن انداز میں عدالت پہنچ رہا تھا، لیکن پانچ منٹ پہلے کارکنوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔
آئی جی اسلام آباد کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی اطلاع ہے کہ پولیس پر بھی شیلنگ کی گئی ہے جس کی تحقیق کی جا رہی ہے اور کچھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
'ساری ذمے داری پولیس پر عائد ہوتی ہے'
تحریکِ انصاف کے رہنما شبلی فراز نے الزام عائد کیا ہے کہ ہفتے کو اسلام آباد میں جو کچھ بھی ہوا، اس کی ساری ذمے داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پر وہ آئی جی اسلام آباد سے رابطے میں تھے جس کا مقصد عمران خان کی بلارکاوٹ پیشی کو یقینی بنانا تھا۔
شبلی فراز کے بقول آئی جی اسلام آباد نے جان بوجھ کر عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے سے روکا جس سے ان کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے عمران خان کو حاضری لگوا کر واپس جانے کی اجازت دینے کے معاملے پر مریم نواز نے بھی طنزیہ ٹوئٹ کی ہے۔
مریم نواز نے لکھا کہ 'میرے پاس حاضر ہو کر میری حاضری قبول فرمائی جائے!'
اس سے قبل ہفتے کی صبح عمران خان لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے قافلے کی صورت میں اسلام آباد روانہ ہوئے۔ عمران خان کے ہمراہ کمانڈوز بھی موجود تھے۔
اسلام آباد پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کسی بھی اسلحہ بردار کو دارالحکومت میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔
پولیس کا دعویٰ تھا کہ اسلام آباد کے تمام اندرونی راستے کھلے ہوئے ہیں اور جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف میں سیکیورٹی کے پیش نظر خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جوڈیشل کمپلیکس سمیت اسلام آباد میں عوامی ریلیوں کی لائیو اور ریکارڈڈ کوریج پر ایک روز کے لیے پابندی عائد کردی تھی۔
دوسری جانب عمران خان نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ایک حادثے کی وجہ سے اسلام آباد کی عدالت میں پیشی میں تاخیر ہوگئی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے گرفتار کرنے کا پورا منصوبہ بنایا ہوا ہے جو لندن پلان کا حصہ ہے۔ یہ نواز شریف کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کو جیل میں ڈالا جائے تاکہ میں الیکشن میں حصہ نہ لے سکوں۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ مجھے گرفتار کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن میں قانون کی حکمرانی کو مانتا ہوں۔ اور میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ اور جنہوں نے انہیں بٹھایا ہے وہ بے نقاب ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب عمران خان کے قافلے میں موجود گاڑیوں کو حادثہ بھی پیش آیا ہے۔ چکوال کے قریب ایک گاڑی تیز رفتاری کے باعث الٹ گئی جس کی وجہ سے دیگر گاڑیاں بھی آپس میں ٹکرا گئیں۔ گاڑی حافظ آباد کے مقام سے عمران خان کے قافلے میں شامل ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو 18 مارچ تک روک دیا تھا۔
عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ناقابلِ ضمانت وارنٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔جمعرات کو سیشن عدالت نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ عمران خان عدالتی اوقات کار میں ہی ٹرائل کورٹ میں پیش ہوں اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اس کے نتائج ہوں گے اور توہینِ عدالت کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
عدالت نے جمعے کو مختصر فیصلہ سناتے ہوئے مقامی انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس کو سیکیورٹی انتظامات کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ برس اکتوبر میں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو آئین کے آرٹیکل تریسٹھ ون (پی) اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 137، 167 اور 173 کے تحت نااہل قرار دے دیا تھا۔
عمران خان پر یہ الزام تھا کہ اُنہوں نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کا اپنے گوشواروں میں ذکر نہیں کیا تھا۔ لہذٰا وہ غلط بیانی کے مرتکب ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے سابق وزیرِ اعظم کے خلاف فوج داری کارروائی شروع کرنے کا بھی حکم دیا تھا جس کے تحت اب عمران خان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔