امریکی فوج کے سات اعلیٰ اہلکاروں نے گوانتانامو بے کے ایک قیدی کے لئے معافی کی اپیل کی ہے،اور کہا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے ماجد شوکت خان نام کے قیدی کو دی جانے والی اذیت امریکہ کے لیے 'بدنامی کے داغ' کے مترادف ہے۔ ان کی یہ اپیل اتوار کو شائع ہونے والے ایک مراسلے میں کی گئی ہے۔ یہ وہی اہلکار ہیں، جو گزشتہ ہفتے اسی قیدی کو 26 سال قید کی سزا سناچکے ہیں۔
گیارہ سمتبر 2001ء کے حملوں کے بعد حراست میں لیے گئے کسی قیدی پر بیتی اذیت سے متعلق تفصیلات پاکستانی شہری ماجد خان نے سزا سنانے والی جیوری کے سامنے بیان کی۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح سے انھیں سی آئی اے کے تفتیش کاروں کی جانب سے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، مارا پیٹا گیا اور واٹر بورڈنگ کی سزا دی گئی۔
ماجد خان کو 29 اکتوبر کو کیوبا میں واقع امریکی بحریہ کے اڈے پر سزا سنائی گئی۔ واضح رہے کہ انھوں نے انیس سال قبل 2002ء میں القاعدہ کی جانب سے دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں مدد کے لئے اقبال جرم کیا تھا۔
تاہم، 'نیو یارک ٹائمز' میں شائع ہونے والے ایک مراسلے میں انہیں سزا دینے والی جیوری کے آٹھ میں سے سات اہلکاروں نے ان سے روا رکھے گئے سلوک کو ''امریکہ کے اخلاقی کردار پر داغ'' قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ گوانتانامو بے میں ملٹری کمشنز نے اے ایف پی سے مراسلے سے متعلق مکتوب کی تصدیق کی۔
اہلکاروں نے کہا کہ ''پینل کے درج ذیل ارکان نے ماجد شوکت خان کے کیس میں رحم کی سفارش کی۔ پینل میں بری فوج کے چھ جب کہ بحریہ اور میرین کے ایک ایک رکن شامل تھے۔ انھوں نے جیوری کے نمبر درج کرتے ہوئے مراسلے پر دستخط کیے، جب کہ اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ ''مسٹر خان نے امریکہ اور اس کے ساتھی ملکوں کے خلاف سنگین جرائم کیے۔ اس نے اپنا جرم مانا ہے اور اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ مزید یہ کہ اس نے ہلاک شدگان اور ان کے اہل خانہ کو پہنچنے والی تکلیف پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے۔''
ابھی یہ بات واضح نہیں کہ آیا اس مراسلے پر کیا اقدام لیا جائے گا۔ تاہم،سوائے ایک کے، جیوری کے تمام حاضر سروس ارکان نے ایک غیر معمولی مؤقف اختیار کیا ہے۔
اس سے پیشتر ایک 'پلی ڈیل' طے ہوئی تھی، جس بات کا جیوری کے ارکان کو علم نہیں تھا، ماجد خان کو اگلے سال رہائی ملنی ہے، چونکہ وہ پہلے ہی 19 سال تک امریکی حراست میں رہ چکے ہیں۔
ماجد کو اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ کلاسیفائیڈ معلومات ظاہر نہ کرنے کے علاوہ اپنی باقی کہانی بیان کر سکتے ہیں۔ انھوں نے 39 صفحات پر مشتمل بیان میں تفصیلی روداد بیان کی کہ کس طرح مارچ 2003ء میں کراچی میں گرفتاری کے بعد انھیں پاکستان، افغانستان اور ایک تیسرے ملک میں اذیت دی گئی۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ''مسٹر خان کو ایسی جسمانی اور نفسیاتی اذیت سے گزرنا پڑا، جو منظور شدہ تفتیش کےجدید طریقوں اور دائرہ کار سے ہٹ کر تھی۔ اس قسم کی اذیت کی انٹیلیجنس کے حوالے سے نہ کو ئی عملی افادیت تھی اور نہ، اس سے امریکی مفادات کو بظاہر کوئی مدد ملی''۔
مراسلہ تحریر کرنے والوں کا کہنا تھا کہ نوجوان ماجداس وقت اپنی ماں کے انتقال کے سوگ میں تھا اور ''بھرتی کرنے والے شدت پسندوں کے لیے آسان ہدف تھا''،
اہلکاروں نے کہا کہ ''اب 41 برس کی عمر میں وہ اپنے کیے پر نادم ہے اور آئندہ کسی شدت پسندی میں ملوث ہونے کا خطرہ بھی نہیں''۔
ماجدخان پاکستان میں پیدا ہوئے اور 16 برس کی عمر میں امریکہ منتقل ہوئے تھے۔
اکتالیس سالہ ماجد نے القائدہ کا ساتھ دینے کے اپنے فیصلے کو غلط قرار دیا۔
انھوں نے عدالت سے کہا کہ میں 20 سال قبل کی طرح اب اتنا کم عمر، قوت فیصلہ سے عاری یا آسانی سے جھانسے میں آنے والا بچہ نہیں رہا۔ بقول ان کے، ''میں القائدہ کو مسترد کرتا ہوں، میں دہشت گردی کی مذمت کرتا ہوں۔''
اذیت دیے جانے سے متعلق ان کی شہادت امریکی سینیٹ کی اپنی تفتیش سے مطابقت رکھتی ہے، جو سینیٹ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد سی آئی اے سے متعلق اپنی رپورٹ میں درج کر چکی ہے۔
[اس رپورٹ میں درج معلومات ایجنسی فرانس پریس کی خبر سے لی گئی ہے]