رسائی کے لنکس

افغان امن عمل: چار ملکی اجلاس آئندہ ماہ اسلام آباد میں ہوگا


سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ چار فریقی اجلاس 15 جنوری سے قبل ہو گا لیکن تاریخ کا حتمی تعین تاحال نہیں کیا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے عہدیداروں کا چار فریقی اجلاس آئندہ ماہ اسلام آباد میں ہو گا۔

اُنھوں نے بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ چار فریقی اجلاس 15 جنوری سے قبل ہو گا لیکن کسی تاریخ کا تعین تاحال نہیں کیا گیا ہے۔

’’ابھی تاریخ مقرر نہیں ہوئی ہے لیکن 10 اور 15(جنوری) کے درمیان اسلام آباد میں اجلاس ہو گا کابل میں نہیں۔۔۔ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ (چار فریقی) رابطہ کمیٹی ہو گی جو کہ مذاکرات کے عمل کو مربوط کرے گی اور آگے لے کر جائے گی تو اس رابطہ کمیٹی کا پہلا اجلاس پندرہ تاریخ سے پہلے اسلام آباد میں ہو گا یہاں اس عمل کو شروع کرنے اور اسے آگے لے کر جانے کے بارے میں گفتگو ہو گی اور ایک دوسرے سے مل کر (اسے) مشترکہ ذمہ داری کے تحت آگے لے کر جایا جائے گا‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ چاروں ممالک افغانستان میں امن عمل سے متعلق اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔

’’چاروں ممالک کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہر ایک ایک کے اپنے اپنے رابطے ہیں۔ اس اجلاس میں ہی یہ طے ہو گا کہ کس کے رابطے ہیں اور کس طریقے سے گفتگو شروع ہو گی۔‘‘

اس سے قبل خبر رساں ادارے "رائیٹرز" نے نام ظاہر کیے بغیر افغان ایوان صدر کے ایک عہدیدار کے حوالے سے کہا تھا کہ چار فریقی اجلاس کابل میں ہو گا۔

رواں سال جولائی میں پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات کی میزبانی کی تھی جس میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔

لیکن اس مذاکرات کا طے شدہ دوسرا دور طالبان کے رہنما ملا عمر کی وفات کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد ملتوی کر دیا گیا جو کہ تاحال بحال نہیں ہو سکا اور اسے دوبارہ شروع کرنے کے لیے رواں ماہ ہی کوششوں کو تیز کیا گیا۔

گزشتہ اتوار کو ہی پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کابل کا دورہ کر کے وہاں سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں امن عمل سے متعلق تبادلہ خیال کیا تھا۔

اگست میں کابل سمیت افغانستان کے مختلف حصوں میں طالبان کے پے در پے ہلاکت خیز حملوں کے بعد کابل نے ایک بار پھر اسلام آباد پر یہ الزامات عائد کیے کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔

تاہم پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہو چکا ہے اور وہ ایک پرامن و مستحکم افغانستان کا حامی ہے کیونکہ یہ خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔

طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبر کے ساتھ یہ انکشاف بھی سامنے آیا تھا کہ ان کا انتقال دو سال قبل ہوا تھا اور نئے امیر ملا اختر منصور کو دیگر طالبان رہنماؤں کی طرف سے اس بنا پر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ ملا عمر کی خبر کو اتنے عرصے تک پوشیدہ کیوں رکھا گیا۔

طالبان کے آپسی اختلافات بھی خاصے شدید ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے مذاکرات کے مستقل کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

لیکن پاکستان اور افغانستان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امن عمل کے مقصد کے حصول کے لیے ان طالبان گروپوں سے مذاکرات جاری رکھیں گے جو مصالحت کے لیے تیار ہیں۔

XS
SM
MD
LG