کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 28 ہوگئی ہے، جن میں 10 لاشیں مسلح حملہ آوروں کی بتائی جاتی ہیں۔
سول ایوی ایشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کارگو کے قریب سے مزید دو افراد کی لاشیں ملی ہیں، جس کے بعد مرنے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے، جبکہ وزیر اعظم نواز شریف کو حملے کی رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔
یہ دہشت گرد حملہ، جس میں دھماکے، آگ لگنے کے واقعات اور گولیوں کا تبادلہ شامل تھا، پانچ گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہا۔
اس سے قبل پیر کی شام پی آئی اے کے ترجمان نے پروازوں کی بحالی کی باقاعدہ تصدیق کی۔ کلیئرنس کے بعد، پاک فوج اور رینجرز کی جانب سے ایئرپورٹ کی سیکورٹی کے انتظامات ائیرپورٹ سیکورٹی فورس (اے ایس ایف) اور سول ایوی ایشن کے سپرد کردیئے گئے ہیں۔
فلائٹ آپریشن پیر کی شام چار بجے اس وقت شروع ہوا جب پہلی پرواز کراچی سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئی۔ ادھر نواب شاہ میں گزشتہ رات اتاری جانے والی پروازیں بھی کراچی پہنچ گئیں، جس کے بعد ائیرپورٹ کا کام کاج مکمل طور پر معمول کی سطح پر آگیا۔
ایئرپورٹ کے آپریشنل ہونے پر جہاں مسافروں نے سکھ کا سانس لیا وہیں قومی ایئرلائن کی مینٹی نینس لیب میں کام کرنے والے متعدد ملازمین نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کو لیب میں کام کرنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کے وعدے پر بتایا کہ وہ اور اس کے درجن بھر ساتھی واقعے کے وقت لیب میں موجود تھے۔ یہ لیب پرانے ٹرمینل کی مین بلڈنگ کے سامنے احاطے میں قائم ہے۔
عہدیدار کے مطابق جیسے ہی انہوں نے مسلسل فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنیں وہ سمجھ گئے کہ معاملہ کچھ اور ہے اور حالات ’غیر معمولی‘ ہوگئے ہیں۔ لہذا، انہوں نے فوراً ہی لیب کے دروازوں کے آگے فرنیچر اور بھاری سامان لگا دیا، تاکہ کوئی آسانی سے اندر نہ آسکے۔ کھڑکیوں پر لوہے کی گرل لگی ہوئی ہے۔ لہذا، انہیں کھڑکی کا ڈر نہیں تھا البتہ اسے بند کردیا گیا تھا اور لائٹس آف تھیں۔ لیب کے دو مختلف ڈپارٹمنٹس ہیں اور دونوں میں موجود افراد نے ایسا ہی کیا۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ لیب میں موجود تمام افراد پر خوف طاری تھا جبکہ باہر ہونے والی فائرنگ اور دھماکوں نے اوسان مزید خطاکردیئے تھے۔ گوکہ آپریشن صبح ختم ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود سب لوگ شدید بے چینی محسوس کررہے تھے۔ اب آپریشن کی بحالی کی خبر سن کر دل کو بہت اطمینان پہنچا ہے۔
فی الوقت کراچی ایئرپورٹ پر سیکورٹی انتہائی حد تک سخت کردی گئی ہے۔ داخلی اور خارجی راستوں کے علاوہ آس پاس کے تمام علاقوں اور ایئرپورٹ جانے والے راستوں پر سخت چیکنگ اور پہراہے۔ عمارت میں جانے والے ہر شخص کی سخت چانچ پڑتال کی جارہی ہے ۔ کسی پر زرا سا بھی شک ہو تو پوچھ تاچھ کے لئے روک لیا جاتا ہے ۔
دوسری جانب وزیراعظم کو واقعے کی مکمل رپورٹ پیش کردی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد ایئرپورٹ پر موجود تمام طیارے تباہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن، سیکورٹی فورسز نے انہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
مقامی میڈیا اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے کامیاب آپریشن پر سیکورٹی فورسز کو سراہا ہے۔
سول ایوی ایشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کارگو کے قریب سے مزید دو افراد کی لاشیں ملی ہیں، جس کے بعد مرنے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے، جبکہ وزیر اعظم نواز شریف کو حملے کی رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔
یہ دہشت گرد حملہ، جس میں دھماکے، آگ لگنے کے واقعات اور گولیوں کا تبادلہ شامل تھا، پانچ گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہا۔
اس سے قبل پیر کی شام پی آئی اے کے ترجمان نے پروازوں کی بحالی کی باقاعدہ تصدیق کی۔ کلیئرنس کے بعد، پاک فوج اور رینجرز کی جانب سے ایئرپورٹ کی سیکورٹی کے انتظامات ائیرپورٹ سیکورٹی فورس (اے ایس ایف) اور سول ایوی ایشن کے سپرد کردیئے گئے ہیں۔
فلائٹ آپریشن پیر کی شام چار بجے اس وقت شروع ہوا جب پہلی پرواز کراچی سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئی۔ ادھر نواب شاہ میں گزشتہ رات اتاری جانے والی پروازیں بھی کراچی پہنچ گئیں، جس کے بعد ائیرپورٹ کا کام کاج مکمل طور پر معمول کی سطح پر آگیا۔
ایئرپورٹ کے آپریشنل ہونے پر جہاں مسافروں نے سکھ کا سانس لیا وہیں قومی ایئرلائن کی مینٹی نینس لیب میں کام کرنے والے متعدد ملازمین نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کو لیب میں کام کرنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کے وعدے پر بتایا کہ وہ اور اس کے درجن بھر ساتھی واقعے کے وقت لیب میں موجود تھے۔ یہ لیب پرانے ٹرمینل کی مین بلڈنگ کے سامنے احاطے میں قائم ہے۔
عہدیدار کے مطابق جیسے ہی انہوں نے مسلسل فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنیں وہ سمجھ گئے کہ معاملہ کچھ اور ہے اور حالات ’غیر معمولی‘ ہوگئے ہیں۔ لہذا، انہوں نے فوراً ہی لیب کے دروازوں کے آگے فرنیچر اور بھاری سامان لگا دیا، تاکہ کوئی آسانی سے اندر نہ آسکے۔ کھڑکیوں پر لوہے کی گرل لگی ہوئی ہے۔ لہذا، انہیں کھڑکی کا ڈر نہیں تھا البتہ اسے بند کردیا گیا تھا اور لائٹس آف تھیں۔ لیب کے دو مختلف ڈپارٹمنٹس ہیں اور دونوں میں موجود افراد نے ایسا ہی کیا۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ لیب میں موجود تمام افراد پر خوف طاری تھا جبکہ باہر ہونے والی فائرنگ اور دھماکوں نے اوسان مزید خطاکردیئے تھے۔ گوکہ آپریشن صبح ختم ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود سب لوگ شدید بے چینی محسوس کررہے تھے۔ اب آپریشن کی بحالی کی خبر سن کر دل کو بہت اطمینان پہنچا ہے۔
فی الوقت کراچی ایئرپورٹ پر سیکورٹی انتہائی حد تک سخت کردی گئی ہے۔ داخلی اور خارجی راستوں کے علاوہ آس پاس کے تمام علاقوں اور ایئرپورٹ جانے والے راستوں پر سخت چیکنگ اور پہراہے۔ عمارت میں جانے والے ہر شخص کی سخت چانچ پڑتال کی جارہی ہے ۔ کسی پر زرا سا بھی شک ہو تو پوچھ تاچھ کے لئے روک لیا جاتا ہے ۔
دوسری جانب وزیراعظم کو واقعے کی مکمل رپورٹ پیش کردی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد ایئرپورٹ پر موجود تمام طیارے تباہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن، سیکورٹی فورسز نے انہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
مقامی میڈیا اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے کامیاب آپریشن پر سیکورٹی فورسز کو سراہا ہے۔