سزا اور قید کا مقصد جرم کرنے والے کی اصلاح کرنا ہے لیکن عموماً جیلوں کا تاثر ہمیشہ سے اس تصور کے برعکس رہا ہے۔ مگر کراچی کی سینٹرل جیل نے قیدیوں کے لیے اصلاحی پروگراموں کا آغاز کرکے قید کے صحیح مقصد کے حصول کی جانب ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ اس وقت یہاں قیدیوں کے لیے فائن آرٹس، سائیکو تھراپی، بیکنگ ، کمپوٹر ٹریننگ، انگلش لینگویج اور تعلیمِ بالغاں جیسے منصوبوں پرمختلف غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے کام ہو رہا ہے ۔
نصرت منگن سینٹرل جیل کراچی کے سپر یٹنڈنٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ معاشرتی تربیت اور ماحول نے لوگوں کی شخصیت کو غیر متوازن بنا دیا ہے جس سے حساسیت ختم ہورہی ہے اور جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس لیے اس پروجیکٹ کا مقصد ان قیدیوں میں نرمی اور حساسیت پیدا کرکے معاشرے کی بقا کے لیے ان کو اپنی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ ان کے بقول ” آزادی ایک احساس ہے ۔قید بھی ایک احساس ہے تو ہم جو یہ پروجیکٹ کر رہے ہیں یہ ان میں حساسیت پیدا کررہے ہیں۔جب احساس پیدا ہوجائے گا تو اس کو قید بھی قید لگے گی۔ آزادی اور قید ہونے کا جو فرق ہے وہ تب نظر آئے گاجب آب کے اندر نرمی ہو اور یہی ہم کرنے جارہے ہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر ان لوگوں کو جیل میں رکھیں تو کیا فرق ہے اور اگر باہر رکھیں تو کیا فرق ہے۔ “
کراچی سینٹرل جیل میں اس وقت تین ہزار سے زائد قیدی ہیں۔یہاں تربیت دینے والوں کی اکثریت قیدیوں کی ہے ۔ اگرچہ اس تربیت کا حصہ بننے کے بعدقیدیوں کو سزا کی کمی کی صورت میں ریلیف بھی حاصل ہے مگر اس منصوبے سے استفادہ کرنے والے قیدیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس پر نصرت منگن کہتے ہیں کہ ”اگر آپ کسی کی اصلاح کر رہے ہیں تو یہ زبردستی نہیں ہو سکتی وہ آپ ڈنڈے کے زور پر نہیں کرواسکتے۔یہ سارے شوق دل میں ہوتے ہیں ۔ اگر ہم کسی کو زبردستی بٹھادیں آرٹ کے کسی پروجیکٹ پر تو وہ بندہ خود بھی بور ہوگا اور دوسروں کو بھی بور کرے گا۔ “تاہم وہ کہتے ہیں کہ قیدیوں کو جیل میں جاری تعمیری سرگرمیوں کا حصہ بنانے کے لیے جیل انتظامیہ کی جانب سے انھیں مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
محمد اقبال نے یہیں سے بیکنگ سیکھی اور اب دوسروں کو سکھا رہے ہیں۔وہ دو سال سے یہاں قید ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلے مجھے بالکل پتا نہیں تھا کہ بیکری کیا چیز ہوتی ہے بس خریدتے تھے جا کر۔سب یہاں پر آکر سیکھا۔ “وہ بتاتے ہیں کہ انھیں یہاں اس کام کے پیسے بھی ملتے ہیں جس سے وہ اپنے عدالتی کام کر لیتے ہیں۔
قیدیوں کے لیے غیر سرکاری ادارے کرمنون کی جانب سے یہاں تین سال سے تربیتی کورس کروایا جارہا ہے ۔اس کورس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس کامقصد ان قیدیوں کواپنے مسائل اور معاملات کو پرکھنے اور حل کرنے کے لیے رویوں کو بدلنا ہے ۔یہاں انھیں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ ایک ایماندار دل اور صاف ہاتھ یہی خوشی اور بقا کی واحد علامت ہیں۔
یہاں تربیت حاصل کرنے والے قیدیوں کا کہنا ہے کہ ان کا معاملات کو سمجھنے کا فہم بدل گیا ہے۔ یہاں قیدظہیر کہتے ہیں کہ ” برداشت اور معاملات سے نمٹنا باہر نہیں سکھایا جاتا۔اتنے عرصے باہر اسکول کالج اور یونیورسٹی میں نے تو کبھی ان چیزوں کو نہیں دیکھا۔ جیل میں آکر مجھے پتہ چلا کہ اس نوعیت کا پروگرام ہے اور بالکل مختلف انداز میں یہ بالکل ایک مختلف نظریہ ہے جو اس بات کی آگاہی دے رہے ہیں کہ جرائم کیسے وجود میں آتے ہیں ان کو کیسے کم کیا جائے اور مسئلے مسائل سے کیسے نمٹا جائے۔ یہ پروگرام اگر باہر ہو خاص کر کے اسکول کی سطخ پر ہو تو بہت اچھا ہوگا “۔
عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ہونے والے جرائم میں پولیس کا بہت بڑا کردار ہے اس لیے ان کے لیے بھی تربیت بے حد ضروری ہے۔ جیل سپریٹنڈنٹ کہتے ہیں کہ اس بات سے انکار نہیں کہ پولیس کاشائستہ اور متحمل مزاج ہونا بے حد ضروری ہے لیکن پولیس چونکہ اسی معاشرے کا حصہ ہے اس لیے تر بیت کی ضرورت صرف پولیس کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو ہے۔
قیدیوں کی اصلاح کے لیے اس طرح کے پروگراموں کی ضرورت پاکستان کی تمام جیلوں میں ہے۔ جیل سپریٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے جس کا ایک حصہ جیل کے اندر اور دوسرا جیل کے باہر ہے۔ کیوں کہ قید ختم ہونے کے بعد یہ سماجی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے اپنے پرانے ماحول کا حصہ بننے کے بجائے ایک نئی زندگی شروع کرنے میں مدد دیں۔