کراچی میں ہونے والے حالیہ گروہی فسادات میں جس علاقے کا نام سب سے زیادہ خبروںمیں آیا وہ کٹی پہاڑی کا علاقہ ہے ۔ اپریل 2006 میں نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں واقع دو آبادیوں کے درمیان واقع پہاڑ کو کاٹ کر انہیں ملانے کے لئے ایک منصوبہ شروع کیا گیا ۔ اس سے پہلے کہ اس علاقے کا کوئی باقاعدہ نام رکھا جاتا، مقامی آبادی نے اسے کٹی پہاڑی کے نام سے منسوب کردیا۔تاہم کٹی پہاڑی کا یہ علاقہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے اس قدر خطرناک ہوگیا ہے کہ اگر حکومت کو اس سے قبل زرا سا بھی اندازہ ہوتا تو شاید وہ کبھی یہ پہاڑ کاٹنے کی جسارت نہ کرتی۔
سن 2006ء تک شمالی ناظم آباد اور قصبہ کالونی کے درمیان واقع پہاڑبالکل اسی طرح موجود تھا جس طرح دو گھروں کو علیحدہ کرنے والی دیوار ہوتی ہے ۔اسے منگھو پیر کی پہاڑی کہا جاتا تھاجو کافی طویل ہے۔ پہاڑی کی دونوں جانب سینکڑوں کی تعداد میں گھر بنے ہوئے تھے۔
شمالی ناظم آباد کی جانب پہاڑ پر قائم آبادی پہاڑ گنج کہلاتی ہے، جس میں کئی ذیلی آبادیاں ہیں جبکہ اورنگی ٹاؤن کی جانب پہاڑپر قائم آبادی قصبہ کالونی کہلاتی ہے ۔ یہاں بھی کئی ذیلی آبادیاں ہیں ۔ دونوں طرف رہنے والوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ اگر پہاڑ میں سرنگ بنا کر یا اسے کاٹ کر دونوں علاقوں کے درمیان راستہ بنا دیا جائے تو دونوں طرف کے لوگوں کو ایک دوسرے کے علاقے میں جانے کے لئے نسبتاً مختصر فاصلہ طے کرنا پڑے گا ۔
منصوبے کی زد میں کئی سو مربع گز پر محیط بنگلے ، کئی منزلہ گھر ، کچے مکانات اور چند ایک دکانیں آتی تھیں۔ اس جائیداد کے تمام مالکان کو حکومت کی جانب سے جائیداد چھوڑنے کے عوض بھاری رقمیں دی گئیں۔ بلاخر ایک سال کی مسلسل محنت کے بعد منگھو پیر کی پہاڑی کاٹ کر ایک اعشاریہ چار کلو میٹر طویل سڑکت تعمیر کی گئی ۔ اس سڑک کی تعمیر سے آٹھ کلو میٹر طویل فاصلہ سمٹ کر تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر رہ گیا ۔
کاٹا جانے والا پہاڑ پتھریلا ہے اور سڑک بنانے کے لئے اسے سیدھے کے بجائے زینے کی طرح کاٹا گیا ہے تاکہ بارش میں تودے گرنے کا خطرہ نہ رہے ۔ جب اسے کناروں سے دیکھا جائے تو کٹائی زینے کی طرح نظر آتی ہے تاہم تعمیر ہونے والی سڑک سیدھی ہے اور اس کی سطح صرف سات فی صدڈھلوان ہے ۔ اس منصوبے پر تقریباً 30 کروڑ روپے لاگت کا اندازہ تھا۔
کٹی پہاڑی کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اس کی ایک جانب پشتو زبان بولنے والے لوگ رہتے ہیں جبکہ دوسری جانب اردو بولنے والوں کی گنجان آبادیاں ہیں۔کراچی میں پچھلے ایک دو برسوں اور خصوصاً حالیہ دنوں میں دونوںگروہوں میں اختلافات کے باعث آئے دن فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ دونوں جانب سے کسی نہ کسی بات پر آئے دن تنازع کھڑا ہوجاتا ہے اور شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ دونوں جانب کے لوگ مورچہ بند ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے پر دن رات گولیاں برستی رہتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں علاقہ بند ہوجاتا ہے اورپولیس اور نیم فوجی دستوں یعنی رینجرز کو بلانا پڑتا ہے۔
فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے سبب دونوں آبادیوں کو ملانے والی سڑک بند کردی جاتی ہے اور کئی روز تک اس طرف آنے کا کوئی سوچتا بھی نہیں۔
فسادات کے سبب یہاں اب تک درجنوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں ۔ ہلاک ہونے والوں میں دونوں فریقوں کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ ان ہلاکتوں کے باعث کٹی پہاڑی خوف کی علامت بن چکی ہے۔ اگرچہ کئی مرتبہ دونوں فریق باقاعدہ معاہدے کے تحت صلح کرچکے ہیں اور کئی بار ان کی طرف سے امن ریلیاں بھی نکالی گئیں مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوہی جاتا ہے جس کے سبب یہ علاقہ دیکھتے دیکھتے میدان جنگ بن جاتا ہے۔
ایک سال کی مسلسل محنت کے بعد منگھو پیر کی پہاڑی کاٹ کر ایک اعشاریہ چار کلو میٹر طویل سڑکت تعمیر کی گئی ۔ اس سڑک کی تعمیر سے آٹھ کلو میٹر طویل فاصلہ سمٹ کر تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر رہ گیا ۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1