پاکستان کی ایک عدالت نے کراچی میں ایک نوجوان کو گولیاں مارکر ہلاک کرنے کے واقعے پر رینجرز کے چھ اہلکاروں پر فردجرم عائد کر دی ہے ۔ ملک کے طاقتور سکیورٹی اسٹیلبشمنٹ کے اہلکاروں کے خلاف اس طرح کی کارروائی کی ماضی میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔
بدھ کو عدالت نے سماعت کے دوران کہا کہ رینجرز اہلکار شاہد ظفر نے دیگر اہلکاروں کی موجودگی میں نوجوان سرفراز شاہ کو 8 جون 2011 کو فائرنگ کر کے قتل کیا جس سے عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوا ہے ۔
تاہم ملزمان نے اپنا جرم قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ان کے وکلاء کے بقول رینجرز اہلکار نے فائرنگ اپنے بچاوٴ میں کی ۔ جس پر عدالت نے سماعت جمعرات تک ملتوی کر کے استغاثہ کو اپنے گواہان عدالت میں پیش کرنے کے لئے کہا ہے ۔
22 سالہ سرفراز شاہ رواں ماہ کراچی کے بینظیر بھٹو پارک میں رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا۔ رینجرز اہلکاروں کا کہنا تھاکہ مقتول ڈکیتی کی کوشش کے دوران مزاحمت پر مارا گیا ۔ تاہم واقعے کی اصل قلعی مقامی میڈیا کو موصول ہونے والی اس ویڈیو فوٹیج سے کھلی جس میں رینجرز کے ایک اہلکار کو ساتھی اہلکاروں کی موجودگی میں ایک نہتے نوجوان پر انتہائی قریب سے فائرنگ کرتے دکھایا گیا ۔ جبکہ نوجوان اس دوران رو رو کر رحم کی درخواست بھی کرتا رہا اور بروقت ہسپتال نہ پہنچائے جانے پر دم توڑ گیا ۔
بعد میں سپریم کورٹ نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لئے سندھ پولیس کے سربراہ فیاض لغاری اور سندھ رینجرز کے سربراہ میجر جنرل اعجاز چودھری کے تین دن کے اندر تبادلے کا حکم دیا جس کے بعد دونوں سربراہان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔
ادھر عدالت کے باہر مقتول سرفراز کے بھائی سالک شاہ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج سب سے بڑا ثبوت ہے اور انہیں عدالت سے انصاف کی امید ہے ۔ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالت کو روزانہ سماعت کرتے ہوئے ایک ماہ میں مقدمہ کافیصلہ کرنا ہے ۔