کراچی —
کہتے ہیں کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے جسے پڑھنے سے نہ صرف انسان کی تنہائی دور ہوتی ہے بلکہ کتاب انسان میں شعور بھی بیدار کرتی ہے۔
منگل 23 اپریل دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام میں کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران کتاب پڑھنے کے رجحان میں کمی دیکھی جارہی ہے اس کی ایک وجہ جہاں مہنگائی کے باعث عام افراد کی قوت خرید نہ ہونا ہے وہیں شہر کی لائبریریوں کی خستہ حالی بھی ہے۔
گزشتہ اقتدار کے 5 سالوں میں تعلیم کے شعبے کا حال اپنی جگہ مگر لائبریریاں بھی حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث صرف ایک عمارت بن کر رہ گئی ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں موجود لائبریریوں میں مختلف موضوعات کی ہزاروں کتابیں موجود تو ہیں مگر لائبریریوں میں بہتر نظام نہ ہونےکے باعث شہری کتابوں جیسے قیمتی اثاثے سے مستفید ہونے سے محروم ہیں۔
شہر کی چند لائبریریوں کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ یہاں آنے والے شہری اب صرف اخبارات کا مطالعہ ہی کرتے نظر آئے کرتے دکھائی دیے۔
شہر کی سب سے مشہور اور قدیم لائبریری فریئر ہال میں قائم " لیاقت لائبریری" میں ہر شعبے کی کتابیں موجود تو ہیں مگر پڑھنےوالوں کی دسترس سے دور دکھائی دیں۔ اس بابت یہاں کے منتظم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ
" گزشتہ سال اس قدیم عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوگیا تھا جس کے باعث اس کی مرمت کا کام جاری تھا اس لئے ان کتابوں کو ہم نے ایک سائیڈ میں رکھ دیا ہے عمارت کا کام مکمل تو ہوگیا ہے مگر جب انتظامیہ کی اجازت ہوگی تو ہم کتابوں کو شیلف میں ترتیب سے رکھ دیں گے"
لائبریری کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ" کتابوں کی ترتیب نہ ہونےسے بہت کم لوگ لائبریری کا رخ کرتے ہیں جو لوگ آتے ہیں وہ صرف اخبار کا مطالعہ ہی کرپاتے ہیں ہم خود مجبور ہیں۔ جب تک انتظامیہ کے آرڈر نہیں ملیں گے لائبریری کا باضابطہ کام شروع نہں ہوسکتا"
کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر قائم خالقدینا ہال لائبریری کا حال بھی کچھ الگ نہ تھا جہاں سرے سے اردو کی کتابیں موجود نہ تھیں اور لائبریری ایک کباڑخانے کا منظر پیش کررہی تھی جو کتابیں موجود تھیں وہ دھول اور مٹی سے اٹی دکھائی دیں۔
لائبریرین ثمینہ خان کا کہنا تھا کہ' لائبریری کی حالت بہت خراب ہے جسکی وجہ شہری انتظامیہ کی عدم توجہ ہے شہر کے بیچ میں لائبریری ہونے کے باعث کئی افراد یہاں آتے ہیں مگراردو کی کتابیں نہ پاکر اب لوگوں نے یہاں کا رخ کرنا ہی چھوڑدیا ہےجو ایک قابل تشویش بات ہے"
دوسری جانب کراچی کے علاقے بوہرہ پیر کے سامنے قائم شہر کی قدیم لائبریریوں میں سے ایک" ہلال لائبریری" بھی انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث بند کردی گئی ہے۔
"ہلال لائبریری" کی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں اردو، انگریزی سمیت گجراتی اور ہندی زبانوں میں کتابیں اور اخبارات موجود ہوتے تھے جنھیں علاقے کے بزرگ افراد سمیت دیگر لوگ آکر یہاں مطالعہ کرتے۔
اسی طرح شہر کے بیشتر علاقوں میں قائم چھوٹی اور پرانی لائبریریاں شہری انتظامیہ کی عدم توجہی کےباعث مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں۔ ان لائبریریوں کے بند ہونے سے جہاں شہریوں میں کتاب پڑھنے اور لائبریری جانے کا رجحان ختم ہورہا ہے وہیں کتابوں کی اہمیت بھی ماند پڑرہی ہے۔
تاہم ان لائبریریوں کے انتظام و انصرام سے متعلقہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف ان کی حالت بہتر کرنے کو کوشش کررہے ہیں بلکہ مزید کتب کی فراہمی سے لوگوں میں کتب بینی کے شوق کی تسکین کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔
منگل 23 اپریل دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام میں کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران کتاب پڑھنے کے رجحان میں کمی دیکھی جارہی ہے اس کی ایک وجہ جہاں مہنگائی کے باعث عام افراد کی قوت خرید نہ ہونا ہے وہیں شہر کی لائبریریوں کی خستہ حالی بھی ہے۔
گزشتہ اقتدار کے 5 سالوں میں تعلیم کے شعبے کا حال اپنی جگہ مگر لائبریریاں بھی حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث صرف ایک عمارت بن کر رہ گئی ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں موجود لائبریریوں میں مختلف موضوعات کی ہزاروں کتابیں موجود تو ہیں مگر لائبریریوں میں بہتر نظام نہ ہونےکے باعث شہری کتابوں جیسے قیمتی اثاثے سے مستفید ہونے سے محروم ہیں۔
شہر کی چند لائبریریوں کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ یہاں آنے والے شہری اب صرف اخبارات کا مطالعہ ہی کرتے نظر آئے کرتے دکھائی دیے۔
شہر کی سب سے مشہور اور قدیم لائبریری فریئر ہال میں قائم " لیاقت لائبریری" میں ہر شعبے کی کتابیں موجود تو ہیں مگر پڑھنےوالوں کی دسترس سے دور دکھائی دیں۔ اس بابت یہاں کے منتظم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ
" گزشتہ سال اس قدیم عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوگیا تھا جس کے باعث اس کی مرمت کا کام جاری تھا اس لئے ان کتابوں کو ہم نے ایک سائیڈ میں رکھ دیا ہے عمارت کا کام مکمل تو ہوگیا ہے مگر جب انتظامیہ کی اجازت ہوگی تو ہم کتابوں کو شیلف میں ترتیب سے رکھ دیں گے"
لائبریری کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ" کتابوں کی ترتیب نہ ہونےسے بہت کم لوگ لائبریری کا رخ کرتے ہیں جو لوگ آتے ہیں وہ صرف اخبار کا مطالعہ ہی کرپاتے ہیں ہم خود مجبور ہیں۔ جب تک انتظامیہ کے آرڈر نہیں ملیں گے لائبریری کا باضابطہ کام شروع نہں ہوسکتا"
کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر قائم خالقدینا ہال لائبریری کا حال بھی کچھ الگ نہ تھا جہاں سرے سے اردو کی کتابیں موجود نہ تھیں اور لائبریری ایک کباڑخانے کا منظر پیش کررہی تھی جو کتابیں موجود تھیں وہ دھول اور مٹی سے اٹی دکھائی دیں۔
لائبریرین ثمینہ خان کا کہنا تھا کہ' لائبریری کی حالت بہت خراب ہے جسکی وجہ شہری انتظامیہ کی عدم توجہ ہے شہر کے بیچ میں لائبریری ہونے کے باعث کئی افراد یہاں آتے ہیں مگراردو کی کتابیں نہ پاکر اب لوگوں نے یہاں کا رخ کرنا ہی چھوڑدیا ہےجو ایک قابل تشویش بات ہے"
دوسری جانب کراچی کے علاقے بوہرہ پیر کے سامنے قائم شہر کی قدیم لائبریریوں میں سے ایک" ہلال لائبریری" بھی انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث بند کردی گئی ہے۔
"ہلال لائبریری" کی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں اردو، انگریزی سمیت گجراتی اور ہندی زبانوں میں کتابیں اور اخبارات موجود ہوتے تھے جنھیں علاقے کے بزرگ افراد سمیت دیگر لوگ آکر یہاں مطالعہ کرتے۔
اسی طرح شہر کے بیشتر علاقوں میں قائم چھوٹی اور پرانی لائبریریاں شہری انتظامیہ کی عدم توجہی کےباعث مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں۔ ان لائبریریوں کے بند ہونے سے جہاں شہریوں میں کتاب پڑھنے اور لائبریری جانے کا رجحان ختم ہورہا ہے وہیں کتابوں کی اہمیت بھی ماند پڑرہی ہے۔
تاہم ان لائبریریوں کے انتظام و انصرام سے متعلقہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف ان کی حالت بہتر کرنے کو کوشش کررہے ہیں بلکہ مزید کتب کی فراہمی سے لوگوں میں کتب بینی کے شوق کی تسکین کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔