کراچی میں بد امنی پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی سماعت جمعرات کو بھی جاری رہی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں امن کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ سماعت کے دوران ایم کیو ایم کے بیرسٹر فروغ نسیم اور بلوچ اتحاد تحریک کے وکیل جمیل وردک نے دلائل دیئے ۔ بعدازاں آئی ایس آئی کی جانب سے سماعت کرنے والے بینچ کو کراچی کی صورتحال پر بریفنگ بھی دی گئی۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کی ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے 1992 کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے افراد اور پولیس اہلکاروں کی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ وہ رپورٹ نہیں ہے۔ اصل رپورٹ آئی بی یا وفاق کے پاس ہے، جو ریکارڈ موجود ہے اس کی کاپی اقبال حیدر کو فراہم کی جائے۔
ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد کی بڑی جماعت ہے ، مختلف الزامات کے بعد اس کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا گیا ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3ماہ سے کراچی میں ہونے والی قتل غارت گری اور جس طرح سے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور انہیں قتل کیا گیاہے اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ خدا کیلئے آئین پر عمل کریں ورنہ فوج کو آنا پڑے گا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ تفتیش کاروں کو غیر جانبدار ہونا چاہیے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ غیر جانبداری کا تعین کیسے ہو سکتا ہے؟
فروغ نسیم کے دلائل کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ بھتہ اور چندہ کیا ہوتا ہے؟ جس پر بتایا گیا کہ ایم کیو ایم بھتے کو غلط سمجھتی ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ خود اس وقت حکومت کا حصہ تھے آپ کو حالات بہتر کرنا چاہیے تھے۔ اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ وہ حکومت کے بے بس اتحادی تھے۔ ایم کیوایم کے وزراء مستعفی ہوچکے ہیں تاہم ان کے استعفے قبول نہیں ہوئے۔ اس پرچیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایم کیوایم کے وزراء سرکاری ملازم ہیں جو ان کے استعفیٰ اب تک منظور نہیں ہوئے۔
ایم کیوایم کے وکیل نے شہر میں رواں برس کے دوران قتل اور زخمی کئے جانے والے ایم کیوایم کے کارکنوں کی تفصیلی فہرست پیش کی اور کہا کہ پولیس میں ہونے والی سیاسی بھرتیاں اور 3 لاکھ اسلحہ لائسنس منسوخ کیے جائیں۔
اس موقع پر جسٹس سرمد جلال عثمانی اپنے ریمارکس کہا کہ ایم کیو ایم نے جولسٹ فراہم کی ہے ایسی لسٹیں دوسرے لوگوں نے بھی عدالت کو فراہم کی ہیں ۔ سب لوگ ایک دوسرے کے خلاف لسٹیں دے رہے ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت میں کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کی رہائشی خاتون ثریا بیگم بھی پیش ہوئیں۔ ثریابیگم نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بیٹے کو بھی اغواء کے بعد قتل کیا گیا تاہم ان کے بیٹے کے موبائل فون آج بھی کھلے ہیں اور ملزمان ان سے بات چیت کرتے ہیں اور ان کا اے ٹی ایم بھی استعمال ہو رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے ایس ایس پی عاصم خان پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ملزمان کوجمعرات تک گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
سماعت کے دوران بلوچ اتحاد تحریک کے وکیل جمیل وردک نے ٹارچر سیل سے بچ کر آنے والے 16 افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کیا اور کہا کہ یہ ان 18 افراد سے مختلف ہیں جنہیں پولیس نے بازیاب کرایا۔ جمیل وردک نے عدالت کو مزید بتایا کہ یہ لوگ پولیس کے پاس گئے لیکن انکی ایف آئی ار درج نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے ایس ایس پی ساؤتھ نعیم شیخ کو حکم دیا کہ جتنے لوگ شہر سے اغوا ہوئے اس کی تفتیش کرکے معلوم کریں انہیں کس نے اغوا کیا، لاشیں ملنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ڈی جی رینجرز کہہ رہے تھے ہم سب ٹھیک کردیں گے لیکن بوری بند لاشیں اب تک مل رہی ہیں۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کو آئی ایس آئی کے ایک اعلیٰ افسر نے چارٹس اور پروجیکٹر کی مددسے چیمبر میں بریفنگ دی۔ ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی اس بریفنگ میں اٹھارنی جنرل پاکستان کو چیمبر سے کچھ وقت کیلئے باہر بھیج دیا گیا ۔