بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز سے مظاہرین کی جھڑپوں میں 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ وادی میں آج جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے کرفیو میں نرمی بھی کی گئی ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پانچ دنوں سے جاری کرفیو اور دیگر پابندیوں میں آج جمعے کے روز کچھ نرمی کی گئی اور لوگوں کو جمعے کی نماز ادا کرنے کے لیے گھروں سے نکلنے کی اجازت دی گئی۔
وادی میں فون اور انٹرنیٹ سروسز کو بھی جزوی طور پر بحال کیا گیا ہے اور نقل و حرکت پر پابندیوں میں بھی نرمی کی گئی ہے۔
البتہ کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے وادی میں اب بھی ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔
بھارتی کشمیر میں جمعے کی نماز پُر امن طریقے سے ادا کی گئی اور کہیں بھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ سری نگر کے شہریوں نے بعد نماز جمعہ بازاروں میں ضروری اشیا کی خریداری بھی کی۔
کشمیر کے اضلاع اودھم پور، کٹھوعہ اور سامبا میں اسکول کھول دیے گئے ہیں البتہ کچھ علاقوں میں اب بھی سکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں۔
پابندیوں میں نرمی پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے جمعے کو پابندیوں میں نرمی کر کے ممکنہ طور پر عید کے لیے صورتِ حال کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عوام کو کسی بھی دشواری کے بغیر عید منانے کا موقع دیا جائے گا۔
ایک سینئر تجزیہ کار نیرجا چودھری کے مطابق بھارتی وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں ساری توجہ جموں و کشمیر پر مرکوز رکھی اور عوام کا اعتماد جیتنے کی کوشش کی ہے۔
واضح رہے کہ نماز جمعہ سے قبل خبر رساں ادارے ’اے پی‘ نے کہا تھا کہ بھارتی کشمیر میں غیر معمولی خاموشی اور سناٹا ہے جبکہ لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں میں رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
کشمیر کے صدر مقام سری نگر کی سڑکیں ناکے لگا کر بند کی گئی ہیں جن پر ہزاروں مسلح فوجی گشت کر رہے ہیں۔
’اے پی‘ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سری نگر اس وقت محاصرے کی کیفیت میں ہے۔ رابطوں کے ذرائع، بازار حتیٰ کہ ہیلتھ کلینکس بھی بند ہیں۔
کشمیر کے لوگوں کو صرف اشد ضرورت کے تحت ہی اپنے گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے جبکہ لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے اور اسپتال جانے کے لیے کئی ناکوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
ایک مقامی شخص مقبول محمد نے ’اے پی‘ کو بتایا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی عیادت کے لیے دوسرے محلے جانا چاہتے تھے لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں جانے کی اجازت نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا بھائی کینسر کا مریض ہے جسے میں نے گزشتہ چار روز سے نہیں دیکھا، وہ قریبی محلے میں ہی رہتا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ اب زندہ بھی ہے یا مر چکا ہے۔‘
مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کشمیریوں کی شناخت چھیننے کی کوشش ہے اور ان کا بھروسہ توڑنے کے مترادف ہے۔
ایک اور مقامی شخص بشیر احمد نے ’اے پی‘ سے گفتگو میں کہا تھا کہ ایک بار پابندیاں اٹھنے دیں لوگ سڑکوں پر ہوں گے، کشمیر کی صورتِ حال اس وقت پریشر کُکر کی طرح ہے یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سری نگر میں کئی مقامات پر مظاہرین کے احتجاج اور پتھراؤ کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں تاہم حکام کی جانب سے ان خبروں کی تصدیق نہیں کی جا رہی۔
سری نگر کے ایک مرکزی اسپتال کے ڈاکٹر نے ’اے پی‘ کو بتایا کہ تقریبا 50 سے زائد لوگوں کو زخمی حالت میں اسپتال لایا گیا ہے جو مظاہروں میں سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے فائر کیے گئے چھرے لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔ ڈاکٹر کے مطابق 13 لوگوں آنکھوں میں زخم آئے ہیں۔
اسپتال میں زیرِ علاج ایک زخمی ریاض احمد نے بتایا کہ جب وہ ایک مظاہرے میں احتجاج کر رہے تھے تب سکیورٹی اہلکاروں نے ان پر چھرے برسائے۔
ریاض کے دوست سجاد وانی کا کہنا تھا کہ وہ ریاض کو سائیکل پر اسپتال لائے، راستے میں انہیں سکیورٹی اہلکاروں نے روکا جبکہ ڈنڈوں سے بھی ان پر تشدد کیا۔
واضح رہے کہ حکام کی جانب سے زخمیوں کی کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔
سکیورٹی حکام اور مقامی افراد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عیدالاضحیٰ پر حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
سری نگر میں اپنی شناخت چھپانے کے لیے چہرہ چھپا کر مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے کہا کہ اگر بھارت نے ہمیں عیدالاضحیٰ پر جمع ہونے دیا تو یہ دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم لڑے بغیر انہیں کچھ کرنے نہیں دیں گے۔
دوسری جانب بھارت کے مقامی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر میں نمازِ جمعہ کے لیے کرفیو میں نرمی کی گئی ہے جبکہ لوگوں کے لیے پرامن طریقے سے نماز جمعہ ادا کرنے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق کشمیر میں فون اور انٹرنیٹ سروس بھی پانچ دن بعد جُزوی طور پر بحال کر دی گئی ہیں لیکن سری نگر کی مرکزی جامع مسجد کے دروازے بند ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگر وادی میں نمازِ جمعہ کے بعد حالات معمول کے مطابق رہے تو پابندیوں میں مزید نرمی کی جائے گی۔
بھارتی خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق وادی کے مختلف علاقوں میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں جب کہ اودھم پور اور کہوٹہ کے علاقوں میں اسکول بھی کھل گئے ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے نے تصاویر اور ویڈیو بھی ٹوئٹ کی ہیں جن میں چند لوگوں کو سڑکوں سے گزرتے اور نماز جمعہ کے لیے مساجد جاتے دیکھا جا سکتا ہے البتہ تمام دکانیں بند اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم دکھائی دے رہی ہے۔
بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے بھی کشمیر کا دورہ کیا اور سری نگر میں فوجی جوانوں اور مقامی افراد سے ملاقاتیں کیں۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری سیتا رام نے جمعے کو کشمیر آنے کی کوشش کی تاہم انہیں سری نگر کے ایئر پورٹ پر سکیورٹی حکام نے روک لیا اور ہوائی اڈے سے ہی نئی دہلی واپس بھیج دیا گیا ہے۔
پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی بندش کے بعد بھارت کی سینما ورکرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے پاکستانی آرٹسٹوں پر پابندی لگانے اور پاکستان سے باہمی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
دوسری جانب بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پاکستان کی جانب سے کسی بھی ممکنہ حملے کے اندیشے کے پیش نظر بھارتی پنجاب اور راجھستان میں ہائی الرٹ جاری کیا ہے جب کہ بھارتی بحریہ نے بھی اپنے اڈوں اور جنگی کشتیوں کو ہائی الرٹ پر رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔