روشن مغل
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری کالج کے ایک پروفیسر پر مبینہ پولس تشدد کے خلاف کئی روز سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔
ایک سرکاری کالج میں تعینات پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسین گذشتہ ہفتے مبینہ پولیس تشدد سے اس وقت زخمی ہو گئے تھے ۔ جب وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی کے خلاف ہٹیاں بالا کے ڈپٹی کمشنر کے پاس شکایت درج کروانے گئے ۔ جہاں تلخ کلامی کے بعد پولیس نے انہیں گرفتار کر کے مبینہ طور پر تشدد کانشانہ بنایا ۔
پروفیسر جمیل نے واقعہ کے بارے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی کے خلاف شکایت کرنے ضلع جہلم ویلی ھٹیاں بالا کے ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے ۔ جس پر مجھے کہا گیا کہ اگر گاڑی میں سفر کرنے والے باقی لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں تو آپ کو اعتراض کیوں ہے ۔ آپ اپنی گاڑی رکھ لیں ۔
اس پر شروع ہونے والے بحث مباحثے کے بعد پولیس طلب کر لی گئی جس کے مارپیٹ شروع کر دی۔
وکلا ،طلبہ اور سول سوسائٹی کی طرف سے اس واقعہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے احتجاج کیا جارہا ہے۔
ہفتے کے روز ضلع پٹیاں بالا کے قصبے چناری میں سیاسی اور سماجی راہنماؤں کی طرف سے احتجاجی بھوک ہڑتال کی گئی۔
احتجاجی بھوک ہڑتال میں شامل ایک راہنما ذیشان حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعہ میں ملوث اہل کاروں کے خلاف کارروائی کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔
ڈپٹی کمشنر ہٹیاں بالا عبدالحمید کیانی کا کہنا ہے کہ پروفیسر جمیل ذہنی مریض ہیں اور اس احتجاج کے پیچھے ان عناصر کا ہاتھ ہے جنہیں بدعنوانی میں ملوث ہونے پر برطرف کر دیا گیا تھا۔