واشنگٹن —
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری رواں ہفتے فلسطین کے صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے جس میں امکان ہے کہ مشرقِ وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی کے امکانات زیرِ غور آئیں گے۔
امریکی محکمہ ٔ خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات جمعرات کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ہوگی۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب امریکی کوششوں سے جاری اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہِ راست مذاکرات کا سلسلہ معطل ہوئے ایک ماہ ہونے کو آرہا ہے۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ اور فلسطینی صدر کے درمیان ہونے والی ملاقات میں گفتگو کا محور امریکہ اور فلسطین کے باہمی تعلقات رہیں گے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق توقع ہے کہ دورانِ ملاقات امریکی وزیرِ خارجہ فلسطینی اتھارٹی اور اسلام پسند مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے درمیان حال ہی میں ہونے والی مفاہمت کا معاملہ بھی اٹھائیں گے۔
امریکہ 'حماس' کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے اور خبردار کرچکا ہے کہ اگر مفاہمتی سمجھوتے کے تحت 'حماس' اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان اشتراکِ عمل ہوا تو امریکہ فلسطینی حکومت کی امداد روک دے گا۔
امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کو سالانہ 50 کروڑ ڈالر تک امداد دی جاتی ہے۔
لیکن اگر حماس فلسطینی حکومت میں شامل ہوگئی تو امریکی قانون کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو امداد نہیں دی جاسکے گی کیوں کہ اس صورت میں اس امداد تک ایک ایسی تنظیم کو بھی رسائی حاصل ہوگی جسے امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔
پیر کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے محکمۂ خارجہ کی ترجمان جین پساکی نے بتایا کہ مشرقِ وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی کا امکان موجود ہے لیکن فلسطینی صدر کے ساتھ امریکی وزیرِ خارجہ کی ملاقات کا مقصد امریکہ اور فلسطین کے باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
ترجمان کے بقول جان کیری ماضی کی طرح اس بار بھی فریقین کو پیغام دیں گے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جن سے مذاکراتی عمل کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مقبوضات میں یہودی بستیوں کی تعمیر نہ روکنے کے معاملے پر مذاکراتی عمل کئی ماہ تک تعطل کا شکار رہا تھا جس کے بعد گزشتہ ماہ فلسطینی صدر محمود عباس نے مخالف فلسطینی تنظیم 'حماس' کے ساتھ قومی حکومت کے قیام کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔
فلسطینی دھڑوں کے درمیان ہونے والی اس مفاہمت کے بعد اسرائیلی حکومت نے 24 اپریل کو مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ 'حماس' اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی اور اسے قابض ریاست قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکام کے ساتھ ہر قسم کی بات چیت کی مخالف ہے۔ اسرائیل حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔
امریکی محکمہ ٔ خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات جمعرات کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ہوگی۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب امریکی کوششوں سے جاری اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہِ راست مذاکرات کا سلسلہ معطل ہوئے ایک ماہ ہونے کو آرہا ہے۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ اور فلسطینی صدر کے درمیان ہونے والی ملاقات میں گفتگو کا محور امریکہ اور فلسطین کے باہمی تعلقات رہیں گے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق توقع ہے کہ دورانِ ملاقات امریکی وزیرِ خارجہ فلسطینی اتھارٹی اور اسلام پسند مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے درمیان حال ہی میں ہونے والی مفاہمت کا معاملہ بھی اٹھائیں گے۔
امریکہ 'حماس' کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے اور خبردار کرچکا ہے کہ اگر مفاہمتی سمجھوتے کے تحت 'حماس' اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان اشتراکِ عمل ہوا تو امریکہ فلسطینی حکومت کی امداد روک دے گا۔
امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کو سالانہ 50 کروڑ ڈالر تک امداد دی جاتی ہے۔
لیکن اگر حماس فلسطینی حکومت میں شامل ہوگئی تو امریکی قانون کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو امداد نہیں دی جاسکے گی کیوں کہ اس صورت میں اس امداد تک ایک ایسی تنظیم کو بھی رسائی حاصل ہوگی جسے امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔
پیر کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے محکمۂ خارجہ کی ترجمان جین پساکی نے بتایا کہ مشرقِ وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی کا امکان موجود ہے لیکن فلسطینی صدر کے ساتھ امریکی وزیرِ خارجہ کی ملاقات کا مقصد امریکہ اور فلسطین کے باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
ترجمان کے بقول جان کیری ماضی کی طرح اس بار بھی فریقین کو پیغام دیں گے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جن سے مذاکراتی عمل کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مقبوضات میں یہودی بستیوں کی تعمیر نہ روکنے کے معاملے پر مذاکراتی عمل کئی ماہ تک تعطل کا شکار رہا تھا جس کے بعد گزشتہ ماہ فلسطینی صدر محمود عباس نے مخالف فلسطینی تنظیم 'حماس' کے ساتھ قومی حکومت کے قیام کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔
فلسطینی دھڑوں کے درمیان ہونے والی اس مفاہمت کے بعد اسرائیلی حکومت نے 24 اپریل کو مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ 'حماس' اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی اور اسے قابض ریاست قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکام کے ساتھ ہر قسم کی بات چیت کی مخالف ہے۔ اسرائیل حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔