پچھلے بلاگ میں ذکر تھا صدر ایوب خان کے دور کا کہ کس طرح میں نے ان کی ریڈیو پر نشر ہونے والی ایک تقریر غلطی سے کاٹ دی اور پھر مسئلہ کتنا بگڑ گیا اور کس طور حل ہوا۔ اس مضمون کو لوگوں نے بہت سراہا تو مجھے ایک اور واقعہ یاد آگیا جس میں ایوب خان کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کے جاہ و جلال کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
میں کہاں اور ایوب خان کہاں، لیکن یہ تمام ان تقریروں کا کمال تھا جو میرے اسکول کے اساتذہ نے مجھے لکھ لکھ کر دیں اور ایسا ماہر کر دیا کہ آج تک اسی بولنے کے سہارے زندگی گزر رہی ہے۔
ایک ایسا ہنر جس کا مجھے قطعی علم نہیں تھا میرے ایک اردو کے استاد کی دور رس نگاہوں نے مجھ میں پا لیا اور نکھار کر اسے دنیا میں متعارف کروا دیا۔
میں اس وقت چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ عبیدالسلام زینی مرحوم اردو پڑھا رہے تھے کہ میرے سبق پڑھنے کی باری آ گئی۔ میں سبق پڑھتا رہا اور وہ سنتے رہے اور جب میں نے سبق ختم کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے کلاس کے بعد ملنا۔ میں سمجھا کہ کوئی خاص غلطی ہو گئی ہے ۔گھبراہٹ کے عالم میں جلدی سے ان کے پاس پہنچا تو وہ مسکرا رہے تھے۔
پھر انہوں نے مجھ سے تفصیلی سوال جواب کیے، حسب نسب پوچھا۔ کہنے لگے ہاں میں سمجھ گیا تھا کہ تمہارا تعلق اردو بولنے والے خاندان سے ہے اسی لئے زبان صاف اور شستہ ہے۔
تو جناب زینی نے کہا کہ تم اگر محنت کرو تو تمہیں تقریری مقابلوں کے لئے تیار کروایا جا سکتا ہے۔
ہم نے پہلی مرتبہ تقریروں کا سنا تھا۔ معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا ہوتی ہیں؟ کیسے کی جاتی ہیں؟ پھر وہ مجھے ایک ہال میں لے گئے جہاں کچھ بچے آئندہ کسی مقابلے کے لئے مشق کر رہے تھے۔
زینی صاحب نے ایک سکرپٹ مجھے دیا اور کہا ذرا پڑھو۔ نقالی بچپن سے ہی کچھ مشکل نہ تھی لہٰذا جیسے وہ لڑکے ایکٹنگ کے ساتھ بول رہے تھے، ہم نے بھی اسی طرح شروع کر دیا۔ استاد کو وہ انداز پسند آگیا۔ وہ مجھے فوراً ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئے۔
شیخ حبیب احمد مرحوم۔ انتہائی قابل استاد اور ہمارے سکول، فیض السلام کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ خود ہمیشہ شیروانی اور جناح کیپ پہنتے تھے اور بچوں کی یونیفارم بھی یہی تھی۔اسکول کا نظم وضبط مثالی تھا۔
میرے والد مرزا عبدالحمید بیگ بھی چونکہ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ اس لئے ان کا اصرار تھا کہ میں شیخ صاحب کی زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کروں، تاکہ علی گڑھ کی تہذیب اور تربیت سے آشنا ہو سکوں۔ آج مجھے خیال آتا ہے کہ ان کی سوچ میرے بارے میں کتنی گہری اور محبت آمیز تھی۔
غرض ہیڈ ماسٹر کے سامنے پیشی ہوئی تو انہوں نے بھی وہی سوال جواب کئے اور جب معلوم ہوا کہ والد صاحب بھی علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہیں تو بہت خوش ہوئے، تقریر سنی اور کہا کہ بالکل، آئندہ مقابلے کے لئے تیار کروائیے۔ اور یوں اس طرح ہمارا پہلا فنیّ سفر شروع ہو گیا۔
پہلی تقریر سیرت النّبی کی تھی۔ زینی صاحب نے اس کا خوب رٹا لگوایا۔ بار بار سنتے اور دوبارہ مشق کے لئے کہتے۔ پھر مقابلے کا دن بھی آ گیا۔ ایک بڑی مقامی مسجد میں بڑا اجتماع تھا۔ شہر بھر کے طالب علم مقرّر وہاں موجود تھے۔ یہ ہمارا پہلا امتحان تھا۔ گھبراہٹ یقینی تھی۔ جب نام پکارا گیا تو حواس مجتمع کئے اور رٹی ہوئی تقریر طوطے کی طرح زور و شور سے باآواز بلند ہاتھ ہلا ہلا کر شروع کر دی۔ سب ٹھیک جارہا تھا کہ اچانک میں نے مجمع میں کچھ لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھا۔کچھ سمجھ نہ آیا کیا ہوا۔ جیسے تیسے تقریر ختم کر کے واپس آیا تو زینی صاحب نے شاباش دی اور حوصلہ بڑھایا۔ ہمارے دوسرے ساتھی کو پہلا انعام ملا لیکن مجھے کچھ نہیں ملا۔ تاہم انعامی ٹرافی ہمارے حصے میں آئی۔ کہا گیا کہ ٹرافی حاصل کرنے میں ہمارے اچھے نمبروں کا بھی حصہ تھا۔ لیکن جب پوچھا کہ لوگ ہنس کیوں رہے تھے تو معلوم ہوا کہ تقریر میں ایک لفظ دو بار آتا تھا۔ وہ جب دوبارہ آیا تو ہم نے تقریر پھر وہیں سے شروع کر دی جہاں سے پہلے لفظ پر ختم کی تھی۔ یہ رٹّے کا کمال تھا اور سمجھ نہیں تھی کہ کیا بول رہے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئندہ سمجھ کر یاد کرنے اور بولنے کی مشق کی۔زینی صاحب تقریریں لکھتے رہے اور ہم مقابلوں میں انعام حاصل کرتے رہے۔ ہمارے ساتھ ہیڈ ماسٹر کے بیٹے مظہر حبیب بھی شریک ہوتے اور ہم دونوں کی اچھی ٹیم بن گئی۔
مگر پھر یہ ہوا کہ زینی صاحب، کسی وجہ سے ناراض ہو کر سکول چھوڑ گئے۔ بہت افسوس ہوا کہ اب کیا ہو گا۔ عجیب اتفاق کہ برسوں بعد جب میں ریڈیو پاکستان میں خبریں پڑھنے گیا تو وہی عبید السلام زینی، ہمارے لئے خبروں کا اردو میں ترجمہ کررہے تھے۔ مگر یہ ساتھ بھی تھوڑا عرصہ ہی رہا اور مرحوم جوانی میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ادھر اسکول میں ان کی جگہ اردو کے ایک اور انتہائی قابل، اور مشفق استاد، صغیر احسن صاحب آ گئے۔ بہت خوب لکھتے تھے۔ میں ان کی لکھی تقریریں برسوں مختلف مواقع پر پڑھتا رہا اور انعام اور داد وصول کرتا رہا۔
ایک دن مجھے ایک ایسے مقابلے میں بھیجا گیا، جہاں ایک ایسے مقرر کا انتخاب ہونا تھا جس نے صدر ایوب خان کو سپاسنامہ پیش کرنا تھا۔
بے شمار مقرر وہاں موجود تھے۔ سب کو سپاسنامہ پڑھوا کر سنا گیا۔ آخر میں دو کا انتخاب ہوا جن میں سے ایک خوش نصیب میں تھا۔
ہمیں یہ زعم اور اعتماد تھا کہ ہم سے بہتر کون، مگر یہ غرور کام نہ آیا۔ ججوں کو کچھ اور ہی منظور تھا لہذا انہیں دوسرا لڑکا پسند آیا،جو بہت چیخ کر بولتا تھا جبکہ ہمارا انداز بہت دھیما تھا۔ تو یہ اعزاز ملتے ملتے رہ گیا۔
لیکن انہوں نے مہربانی یہ کی کہ پورے مغربی پاکستان میں سے بہترین مقرّر کے انعام کا حقدار ہم دونوں کو قرار دیا اور یہ اعزاز صدر ایوب نے دینا تھا۔
پھر وہ دن بھی آیا جب راولپنڈی کے آرمی اور سپورٹس سٹیڈیم میں ایک بہت بڑا پنڈال سجا۔ صدر ایوب خان بڑی شان و شوکت سے تشریف لائے۔ ان کے سامنے جمناسٹک اور کھیلوں کے مقابلے ہوئے اور تقریب کے اختتام پر انعامات کی تقسیم شروع ہوئی۔ تمام سکولوں کے بڑے بڑے ایتھلیٹس اور کرکٹ، ہاکی اور دوسرے کھیلوں کے نامور کھلاڑیوں کو بلایا گیا۔
پھر ہمارا شعبہ آیا۔
اب منظر یہ تھا کہ ایوب خان ایک بڑے اونچے چبوترے پر کھڑے تھے۔ کئی سیڑھیاں چڑھ کر ان تک پہنچا جاتا تھا۔ ایتھلیٹس اور کھلاڑی تو بھاگتے ہوئے ان کے پاس جاتے تھے اور وہ کسی کو میڈل اور کسی کو کپ دیتے تھے۔
جب ہمارا نام پکارا گیا تھا تو ہم نے بھی خوب جوش میں سیڑھیاں چڑھیں لیکن عادت نہ ہونے کے باعث سانس پھول گیا۔ سٹیج پر پہنچے تو ایک انتہائی خوبصورت دراز قد، وجیہ انسان، سفید رنگ کے بش سوٹ میں ملبوس، سیاہ جناح کیپ پہنے ہمارے سامنے تھا۔ ہمارے بچپن کا چھوٹا سا قد اُس طویل القامت شخص کے سامنے اور بھی چھوٹا ہو گیا۔
اب ہم نے پورا سر اٹھا کر ان کو دیکھنے کی کوشش کی،اور دوسرے ایتھلیٹس کی طرح فوجی سیلیوٹ مارنے کی کوشش کی مگر پاؤں جو خوف اور تھکاوٹ سے شل ہو چکا تھا۔
اٹھ نہ سکا اور صرف ہاتھ ہی ماتھے تک بمشکل پہنچا۔
صدر صاحب نے ہماری حالت کو بھانپ لیا اور سمجھ گئے کی بچہ گھبرا گیا ہے۔ فوراً ایک قدم آگے بڑھے اور کہا، شاباش بچہ، شاباش، اور ایک بڑا سا کپ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ یوں کسی فوجی کو ہمارا پہلا سیلیوٹ بھی آدھا تھا۔