پاکستان میں دو دنوں تک ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا بند رہنے کے سبب جہاں اور بہت سے نقصانات ہوئے وہیں ایک فنکار کو بھی خاموشی سے چپ کی چادر اوڑھ کر قبر میں اتر جانا پڑا۔
پاکستان کے بہت ہی کم لوگ بروقت یہ جان سکیں ہوںگے کہ اس بندش کے دوران ہی وہ خواجہ اکمل کی خبر اور خود ان کے وجود سے محروم ہوگئے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا یہ کامیڈی فنکار اب بھی مسکرا رہا ہو اور کہہ رہا ہو: ’’کہو پیارے ۔۔۔کیسی رہی ؟۔۔ہمارا تو مشن ہی یہ تھا کہ زندگی بھر ہنسایا ہے، جاتے وقت بھی کسی کو نہیں رلائیں گے۔۔۔جیت گئے ہم وہی ہوا ناں۔۔!!‘‘
خواجہ اکمل کراچی کے رہائشی تھے۔ لیکن، موت کے فرشتے سے ان کی ملاقات کوئٹہ میں ہوئی۔ وہ ایک تقریب میں شرکت کی غرض سے وہاں گئے تھے کہ اچانک دل کا دورہ پڑا اور چار کندھوں پر سوار ہوکر کراچی لوٹے۔ ان کی عمر 60 سال تھی۔
انہیں کراچی میں واقع ڈیفنس کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ آخری سفر میں ان کے ساتھ بہت سی شوبزنس کی شخصیات اور بڑی تعداد میں عزیز و اقارب نے شرکت کی۔
ساٹھ سالوں میں سے بہت سے سال انہوں نے مزاحیہ اداکاری کو دیئے اور مہارت اور حقیقت پسندی کے ساتھ کامیڈی کرداروں کو نبھایا۔
نجی ٹی وی ’اے آر وائی‘ سے پچھلے کئی سالوں سے ان کی سپرہٹ کامیڈی سیریل ’بلبلے‘ جاری تھی۔ اس سیریل میں وہ ہیروئن ’خوب صورت‘ کے امیر کبیر والد کا رول ادا کر رہے تھے۔
ان کے کردار کا نام ’صدیقی‘ تھا۔ اسی کردار کی بدولت لوگ انہیں ذاتی زندگی میں بھی ’صدیقی صاحب‘ کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ یہی نکتہ ان کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت بنا رہا۔
پاکستانی اسٹیج و ٹی وی کے فنکار اور کامیڈین عمر شریف نے بہت ہی دکھی دل کے ساتھ انہیں شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔
’بلبلے‘ کا ایک اور مشہور کردار ادا کرنے والی سینئر فنکارہ حنا دل پذیر نے بھی خواجہ اکمل کو بھرے دل سے یاد کرتے ہوئے ان کی شخصیت اور کام کی تعریف کی۔ تمام فنکاروں کا یہی کہنا ہے کہ خواجہ صاحب کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔