سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سمندر میں موجود دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانیں 'گریٹ بیریئر ریف' (عظیم حائل شعب) تاریخ کی بدترین بلیچنگ کے عمل سے گزر رہی ہیں اور تقریباً ایک تہائی سے زیادہ چٹانیں اپنی رنگت کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں ۔
آسٹریلوی سائنس دانوں کی ٹیم نے ایک بیان میں کہا کہ آسٹریلیا کے سمندر میں پائے جانے والی کورل ریف یا چٹانوں کے نظام کے کچھ حصوں میں نصف سے زیادہ مرجان بلیچنگ کا شکار ہوکر تباہ ہوچکی ہیں۔
جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلی ال نینو نے بلیچنگ کے عمل کو متحرک کیا ہے۔
آسٹریلیا کے شمال مشرق میں کوئنز لینڈ کے ساحلوں کے ساتھ گریٹ بیریئر ریف یا سنگی مرجانی چٹانوں کا نظام 1600 میل تک پھیلا ہوا ہے جو 2,900 انفرادی سنگستانوں اور 900 جزائر پر مشتمل ہے ۔
یہ دنیا کا واحد سب سے بڑا سمندری ڈھانچہ ہے جو زندہ اجسام نے بنایا ہے اور ان رنگ برنگی چٹانوں کو اربوں ننھے اجسام نے ترتیب دیا ہےجو کورل یعنی مونگے یا مرجان کہلاتے ہیں۔
1981میں گریٹ بیرئیر ریف کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔
کورل ریف متنوع حیات کی حامل ہے یعنی یہ افزائش کے بعد پھر سے اپنی اصلی حالت میں واپس آسکتی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق نئی تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر 1400 میل پر پھیلی ریف کی چٹانوں کا فضائی اور زیر آب تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔
جیمز کک یونیورسٹی کی طرف سے منعقدہ جائزے کے نتائج سے انکشاف ہوا کہ سمندر کے پانی کے معیار میں کمی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ریف کے شمالی اور وسطی حصے میں موجود تقریباً 35 فیصد کے ارد گرد مرجان مر چکے ہیں یا مر رہے ہیں ۔
البتہ بیرئیر ریف کے جنوب میں مرجان کو کافی نقصان نہیں پہنچا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان علاقوں میں پانی کا درجہ حرارت معمول سے قریب تھا۔
جیمز کک یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی ٹیم کی سربراہ ٹیری ہیوز نے کہا کہ ''ہم نے اپنے جائزے میں سمندر کے اندر اندر 84 چٹانوں پر دیکھا کہ وہاں موجود اوسطاً 35 فیصد مرجان مر چکے ہیں یا مر رہے ہیں اور یہ چٹانیں ٹاونز ولے سے پاپوا گنی تک پھیلی ہوئی تھیں ''۔
انھوں نے کہا کہ ریف کے کچھ حصوں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی بلیچنگ کے باعث نصف سے زیادہ کورل تباہ ہو چکے تھے اور ایسا جب ہوتا ہے جب گرم پانی مرجان پر دباؤ پیدا کرتا ہے اور اس کی وجہ سے یہ سفید ہوجاتی ہے اور بیماریوں کےخلاف کمزور پڑ جاتی ہے۔
اس نقصان کے سنگین ترین مضمرات کے حوالے سے انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ مرئے ہوئے پرانے اور زائد العمر مرجان کی واپس افزائش میں طویل وقت درکار ہوگا اور اگلی بلیچنگ کے عمل سے پہلے تک ان کی رنگت واپس آنے کا امکان کم ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کورل کے مقابلے میں سمندر میں مرئے ہوئے کورل، دیگر سمندری مخلوق پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں جو کورل میں غذا اور پناہ کے لیے انحصار کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا یہ 18سالہ ریکارڈ پر بلیچنگ کا تیسرا واقعہ ہے جب گریٹ بیریئر ریف کو عالمی حدت کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ بلیچنگ کے ہر واقعے میں وہ علاقے زیادہ متاثر ہوئےتھے جہاں پانی زیادہ مدت کے لیے گرم تھا۔
امریکہ میں قومی سمندری اور ماحول انتظامیہ کے لیے کورل ریف واچ کوآرڈینیٹر مارک ایکن نے کہا کہ "کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے؟ کہ ہم یہاں ریف پر موجود 35 فیصد کورل کی آبادی کے نقصان کی بات کر رہے ہیں ۔ اور یہ ایک بڑا نقصان ہے۔"
سائنس دانوں کے مطابق تین مرتبہ بلیچنگ کے عمل کا شکار ہونے کے باعث کورل کی خصوصیات اور اقسام میں پہلے ہی تبدیلی آچکی ہے جبکہ ان کا یہ بھی اندازہ ہے کہ حالیہ بلیچنگ تاریخ میں مرجان کی تباہی کا سب سے بڑا واقعہ بن سکتی ہے۔