صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ جنوبی کوریا کے بحری جنگی جہاز کو ڈبونے پر شمالی کوریا کے خلاف سیول جو بھی اقدام اٹھائے گا امریکہ اُس کی مکمل حمایت کرے گا۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوبامانے اپنے فوجی کمانڈروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جنوبی کوریائی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر مستقبل میں کسی بھی جارحانہ اقدام کا جواب دینے کے لیے تیاری کو یقینی بنائیں۔
اس سے قبل پیر کو ہی جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ بک نے ٹیلی ویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کی حکومت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کرے گی کہ وہ شمالی کوریا پر پابندیاں لگائے۔
اُنھوں نے کہا شمالی کوریا کے تجارتی بحری جہازوں کو جنوبی کوریا کی حدود سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مزید برآں صدر لی نے شمالی کوریا کے ساتھ تمام تجارتی تبادلوں کو منجمد کرنے کا اعلان بھی کیا تاہم مشترکہ صنعتی پارک اور کم سے کم انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کے منصوبوں پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
شمالی کوریا نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر اُس کی سرحد پرجنوبی کوریا نے پراپیگنڈہ کے لیے نشریاتی لاؤڈسپیکروں کو دوبارہ نصب کیا تو ان پر حملہ کر کے انھیں تباہ کر دیا جائے گا۔ یہ دھمکی ایک فوجی کمانڈر کی طرف سے دی گئی ہے جس کی تشہیر شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا پر کی گئی اور جنوبی کوریا کے وزیر دفاع کے اُس بیان کے ردعمل میں دی گئی جس میں انھوں نے بحری جنگی جہاز کو ڈبونے کی پاداش میں شمالی کوریا کے خلاف لیے گئے اقدامات کے سلسلے میں نشریاتی لاؤڈ سپیکروں کی دوبارہ تنصیب کا اعلان کیاتھا۔
وزیر دفاع نے مستقبل قریب میں امریکی فوج کے ساتھ مشترکہ آ بدوزوں کی مشقیں شروع کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر نے کہا ہے کہ ان کا ملک پیانگ یانگ کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے لیکن وہ کوئی فوجی تصادم نہیں چاہتے۔
خیال رہے کہ سیول کا الزام ہے کہ گزشتہ مارچ میں اُس کے جنگی بحری جہاز کے ڈوبنے کی وجہ شمالی کوریا کی طرف سے اُس پر داغا گیا ایک تارپیڈو تھا۔ اس واقعہ میں 46 جہاز ران ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن شمالی کوریا نے اس الزام کو من گھڑت قرار دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر جنوبی کوریا نے اس پر حملہ کیا تو وہ اس کا بھرپور جواب دے گا۔