واشنگٹن —
جنوبی کوریا کے ایک اعلیٰ سفارتکار نے کہا ہے کہ سیئول چاہتا ہے کہ اقوام ِمتحدہ ایک ایسی قرارداد پاس کرے جس سے پیانگ یانگ کے حالیہ جوہری حملے کے تجربے کی پاداش میں اس پر ممکنہ فوجی کارروائی کی جا سکے۔
جنوبی کوریا کے خبر رساں ادارے یون ہیپ کے مطابق جنوبی کوریا کے سفارتکار کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کو امید ہے کہ وہ اقوام ِ متحدہ کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس ضمن میں ایک قرارداد منظور کرے۔
اس قرارداد کے توسط سے فوجی بحری بیڑوں کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ دنیا بھر میں کہیں بھی شمالی کوریا کے جہازوں کا راستہ روک سکیں، ایسے جہاز جن پر یہ شبہ ہو کہ وہ اقوام ِ متحدہ کی پابندیوں کے باوجود ہتھیار یا جوہری ہتھیاروں سے متعلق آلات و سامان لے جا رہے ہیں۔
سفارتکار کا کہنا تھا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ چین ایسی کسی قرارداد کا حصہ بنے گا جس میں شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت دی جائے۔
چین اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور شمالی کوریا کا سب سے بڑا اتحادی بھی۔
چین نے پہلے بھی پیانگ یانگ کے خلاف اقوام ِ متحدہ کے چارٹر میں درج ساتویں باب کی شق 42 کے تحت کسی ممکنہ کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ گو کہ چین نے شمالی کوریا کی جانب سے گذشتہ برس دسمبر میں دور تک مار کرنے والے راکٹ داغنے کے خلاف اقوام ِ متحدہ کی قرارداد کی حمایت کی تھی۔
اُس قرارداد کی روشنی میں شمالی کوریا کے اثاثے منجمد کر دئیے گئے تھے اور سفر کی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ’کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ سے منسلک ماہر جیمز شوف کہتے ہیں کہ چین شاید اس قرارداد کی حمایت نہ کرے۔ ان کے الفاظ، ’’میرے نزدیک چین اسے ایک بہت خطرناک اقدام سمجھے گا۔ ایک ایسا اقدام جو شمالی کوریا کو اشتعال دلائے اور مستقبل میں مزید کارروائیوں پر اکسائے۔‘‘
جیمز شوف کہتے ہیں کہ، ’چین کے خیال میں اقوام ِ متحدہ سے اس ضمن میں قرارداد کا منظور کیا جانا ہی کافی ہوگا۔ ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی شرط ہو۔ اس قرارداد کی منظوری سے ہی شمالی کوریا اپنا قبلہ درست کرلے گا۔‘
چین نے منگل کے روز پیانگ یانگ کی جانب سے جوہری تجربے کی مذمت کی تھی اور شمالی کوریا پر زور دیا تھا کہ وہ جوہری تجربے نہ کرنے کے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے۔
بروس کلنگر واشنگٹن میں ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ بطور تجزیہ نگار منسلک ہیں اور کہتے ہیں کہ چین نے اس معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی بجائے اسے ہوا دی ہے۔
اُن کے مطابق، ’چین اقوام ِمتحدہ کے معاملات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ چین نہ صرف اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کے خلاف جا رہا ہے، بلکہ وہ اقوام ِمتحدہ کی معنی خیز قراردادوں کی بھی مخالفت کرتا آیا ہے۔‘
بروس کلنگر کہتے ہیں کہ جو لوگ اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب سے اچھی طرح واقف نہیں وہ شمالی کوریا پر اقوام ِ متحدہ کی اس نئی قرارداد کو شمالی کوریا پر حملے سے تعبیر کریں گے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
ماضی میں، امریکی بحری جہازوں نے شمالی کوریا کے ان بحری جہازوں کا محض پیچھا کیا ہے جس پر انہیں ہتھیاروں یا جوہری ٹیکنالوجی کے آلات کی موجودگی کا شبہ تھا۔
جنوبی کوریا کے خبر رساں ادارے یون ہیپ کے مطابق جنوبی کوریا کے سفارتکار کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کو امید ہے کہ وہ اقوام ِ متحدہ کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس ضمن میں ایک قرارداد منظور کرے۔
اس قرارداد کے توسط سے فوجی بحری بیڑوں کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ دنیا بھر میں کہیں بھی شمالی کوریا کے جہازوں کا راستہ روک سکیں، ایسے جہاز جن پر یہ شبہ ہو کہ وہ اقوام ِ متحدہ کی پابندیوں کے باوجود ہتھیار یا جوہری ہتھیاروں سے متعلق آلات و سامان لے جا رہے ہیں۔
سفارتکار کا کہنا تھا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ چین ایسی کسی قرارداد کا حصہ بنے گا جس میں شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت دی جائے۔
چین اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور شمالی کوریا کا سب سے بڑا اتحادی بھی۔
چین نے پہلے بھی پیانگ یانگ کے خلاف اقوام ِ متحدہ کے چارٹر میں درج ساتویں باب کی شق 42 کے تحت کسی ممکنہ کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ گو کہ چین نے شمالی کوریا کی جانب سے گذشتہ برس دسمبر میں دور تک مار کرنے والے راکٹ داغنے کے خلاف اقوام ِ متحدہ کی قرارداد کی حمایت کی تھی۔
اُس قرارداد کی روشنی میں شمالی کوریا کے اثاثے منجمد کر دئیے گئے تھے اور سفر کی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ’کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ سے منسلک ماہر جیمز شوف کہتے ہیں کہ چین شاید اس قرارداد کی حمایت نہ کرے۔ ان کے الفاظ، ’’میرے نزدیک چین اسے ایک بہت خطرناک اقدام سمجھے گا۔ ایک ایسا اقدام جو شمالی کوریا کو اشتعال دلائے اور مستقبل میں مزید کارروائیوں پر اکسائے۔‘‘
جیمز شوف کہتے ہیں کہ، ’چین کے خیال میں اقوام ِ متحدہ سے اس ضمن میں قرارداد کا منظور کیا جانا ہی کافی ہوگا۔ ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی شرط ہو۔ اس قرارداد کی منظوری سے ہی شمالی کوریا اپنا قبلہ درست کرلے گا۔‘
چین نے منگل کے روز پیانگ یانگ کی جانب سے جوہری تجربے کی مذمت کی تھی اور شمالی کوریا پر زور دیا تھا کہ وہ جوہری تجربے نہ کرنے کے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے۔
بروس کلنگر واشنگٹن میں ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ بطور تجزیہ نگار منسلک ہیں اور کہتے ہیں کہ چین نے اس معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی بجائے اسے ہوا دی ہے۔
اُن کے مطابق، ’چین اقوام ِمتحدہ کے معاملات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ چین نہ صرف اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کے خلاف جا رہا ہے، بلکہ وہ اقوام ِمتحدہ کی معنی خیز قراردادوں کی بھی مخالفت کرتا آیا ہے۔‘
بروس کلنگر کہتے ہیں کہ جو لوگ اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب سے اچھی طرح واقف نہیں وہ شمالی کوریا پر اقوام ِ متحدہ کی اس نئی قرارداد کو شمالی کوریا پر حملے سے تعبیر کریں گے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
ماضی میں، امریکی بحری جہازوں نے شمالی کوریا کے ان بحری جہازوں کا محض پیچھا کیا ہے جس پر انہیں ہتھیاروں یا جوہری ٹیکنالوجی کے آلات کی موجودگی کا شبہ تھا۔