قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبرپختونخوا میں اںضمام کا بل اتوار کو صوبائی اسمبلی میں بحث کے بعد منظور کر لیا گیا۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے قانون ساز اس بل کی منظوری سے قبائلی علاقوں اور عوام پر مرتب ہونے والے اثرات سے متعلق اظہار خیال کیا اور تفصیلی کے بحث کے بعد اس پر ہونے والی رائے شماری کے نتیجے میں دو تہائی اکثریت سے یہ بل منظور کر لیا گیا۔ 92 ارکان نے بل کی حمایت جب کہ سات نے مخالفت کی۔
گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی اور پھر اگلے ہی روز سینیٹ نے فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے بل کی منظوری دی تھی۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) اس انضمام کی مخالفت کرتی آئی ہے اور اتوار کو اس نے پشاور میں اسمبلی کے سامنے احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔
اس جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے اسمبلی کی طرف جانے والے راستوں کو بند کر دیا اور پولیس کی طرف سے انھیں وہاں سے ہٹائے جانے کی کوشش کے دوران مظاہرین نے توڑ پھوڑ اور پتھراؤ شروع کر دیا۔
اس پر پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کی ہاتھا پائی بھی ہوئی اور انھیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس کے بعد مظاہرین وہاں سے منتشر ہوگئے۔
مظاہرے میں شریک قبائلی علاقوں سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن قومی اسمبلی جمال الدین نے صحافیوں سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اس بل کے بارے میں قبائلی عوام سے رائے نہیں لی گئی اور یہ قبائلی عوام کے امنگوں کے مطابق نہیں ہے۔
"اس بل سے قبائل کی خود مختاری صلب ہو جاتی ہے ان کی قومی اسمبلی کی نشستیں 12 کی بجائے چھ رہ گئی ہیں اور اسی طرح میڈیکل کالجز، انجینیئرنگ کالجز میں ہمارا کوٹہ تھا اور بھی بہت سے کوٹے تھے وہ سارے کے سارے چلے گئے، حکومت ہمیں قومی دھارے میں لانے کی بات کرتی ہے لیکن ہمیں نہیں پتا تھا کہ جو چیزیں ہمیں دی گئی تھیں وہ بھی ہم سے چھین لی جائیں گی۔"
تاہم حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ اس انضمام پر قبائلی علاقوں کے عمائدین اور قانون سازوں سے مشاورت کی گئی تھی اور اس سے صوبے کو دیے جانے والے فنڈز میں قابل ذکر اضافہ کیا جائے گا جس سے وہاں ترقیاتی اور عوام کی فلاح کے لیے کام کیے جائیں گے۔