رسائی کے لنکس

قندوز میں جھڑپیں، لوگوں کی نقل مکانی


شہر میں دکانیں بند ہیں اور افغان پولیس اہلکار اپنی ایک چوکی کے پاس کھڑے ہیں
شہر میں دکانیں بند ہیں اور افغان پولیس اہلکار اپنی ایک چوکی کے پاس کھڑے ہیں

صوبائی محکمہ برائے مہاجرین کے ایک عہدیدار کے حوالے سے امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" نے بتایا کہ بدھ سے تقریباً 12 سو لوگ شہر چھوڑ کر پڑوسی صوبے تخار منتقل ہوئے ہیں۔

افغانستان کے شمالی شہر قندوز کے مضافات میں سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی کے باعث شہری یہاں سے بچ نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پیر کو طالبان نے شہر پر حملہ کیا تھا جسے سکیورٹی فورسز نے پسپا کر دیا تھا لیکن شہر کے مضافات اور بعض دیگر قریبی علاقوں میں جمعرات کو چوتھے روز بھی لڑائی جاری ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بدھ کی رات زخیل اور بندہ امام کے علاقوں کے علاوہ کابل قندوز شاہراہ پر بھی طالبان اور سکیورٹی فورسز میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔

بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ سال طالبان کی طرف سے تین روز تک قندوز پر قبضے کے تناظر میں شہریوں کو خدشہ ہے کہ ایسی ہی صورتحال پھر سے پیدا نہ ہو جائے اور اسی بنا پر وہ علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں۔

صوبائی محکمہ برائے مہاجرین کے ایک عہدیدار کے حوالے سے امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" نے بتایا کہ بدھ سے تقریباً 12 سو لوگ شہر چھوڑ کر پڑوسی صوبے تخار منتقل ہوئے ہیں۔

ان کے بقول ان کی اکثریت اسکولوں کی عمارتوں یا دیگر لوگوں کے ساتھ رہ رہی ہے جب کہ بعض لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔

افغانستان میں امریکی فوج کے ایک ترجمان بریگیڈیئر جنرل چارلس کلیولینڈ کا کہنا ہے کہ جمعرات کو افغان کمانڈوز "طالبان کے ٹھکانوں" کو صاف کرنے میں مصروف رہے۔

صوبائی کونسل کے سربراہ محمد یوسف ایوبی کے مطابق بدھ کو رات بھر شہر کے مشرقی اور مغربی حصوں میں لڑائی جاری رہے اور حالیہ صورتحال کے باعث پانی اور خوراک کی قلت کی وجہ سے بھی لوگ نقل مکانی کرنا چاہ رہے ہیں۔

امریکی فورسز نے قندوز میں افغان سکیورٹی فورسز کو طالبان کے خلاف فضائی حملوں سے بھی مدد فراہم کی تھی۔

اس لڑائی کے باعث شہر کے مرکزی اسپتال کو بھی نقصان پہنچا ہے اوراس کا عملہ بھی اپنے تحفظ کے پیش نظر دوسری جگہ چلا گیا ہے۔

1996ء سے 2001ء تک افغانستان پر سخت گیر انداز میں حکومت کرنے والے طالبان پھر سے اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اور حالیہ مہینوں میں ان کے مہلک حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

XS
SM
MD
LG