پاکستان کی ایک اعلیٰ عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری، سیکریٹری کابینہ ڈویژن اور سیکرٹری داخلہ کو سات ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الطاف حسین کی حالیہ تقاریر سے متعلق دائر ایک ہی نوعیت کی تین مختلف درخواستوں کی سماعت کے بعد پیر کو یہ احکامات جاری کیے۔
عدالت عالیہ کے بینچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس ارم سجاد گل شامل ہیں۔
درخواست گزاروں کی طرف سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جب پیر کو اس بارے میں سماعت شروع کی تو درخواست گزاروں کے وکلاء کی طرف سے کہا گیا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی تقاریر میں فوج، رینجرز اور ملکی سلامتی سے متعلق دیگر اداروں کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے وہ اُن کے بقول ملک کے وقار اور سالیمت کے منافی ہیں۔
درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ ایسی تقاریر سے پاکستانی کی ساکھ عالمی سطح پر متاثر ہوئی ہے۔
رواں سال جولائی میں لندن سے ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین نے رینجرز پر شدید تنقید کی تھی جس پر اُن کے خلاف مختلف افراد کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں میں درجنوں مقدمات درج کروائے گئے۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کی طرف سے پہلے ہی یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے انتظامی ادارے ’پیمرا‘ نے الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
ایم کیو ایم کی طرف سے احتجاج کے دوران یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اس طرح کا اقدام آزادی اظہار رائے کے منافی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی پارلیمان میں عددی اعتبار سے چوتھی بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے رواں ماہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ سندھ اسمبلی میں بھی اپنے استعفے جمع کروائے تھے۔
تاہم ایم کیو ایم کے قانون سازوں کی استعفے تاحال منظور نہیں ہوئے ہیں جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کو دوبارہ ایوانوں میں واپس لانے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔