پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا کی ایک کمیٹی نے ملک میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مجوزہ بل کا جامع مسودہ تیار کرنے کے لیے کہا ہے۔
یہ بات سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹی نے نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس سے کہی ہے۔
کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ خواجہ سرا برادری کا شمار ملک کے محروم ترین طبقات میں ہوتا ہے جن سے ناصرف معاشرتی سطح پر امیتاز برتا جاتا ہے بلکہ ان کو تعلیم و روزگار کے مواقع بھی کم میسر ہیں۔
نینشل کمیشن آن ہیومن رائٹس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے کہا کہ کمیشن نے ایک مسودہ تیار کیا تھا جسے کمیٹی کے سامنے پیش گیا گیا۔ اس مجوزہ بل کے تحت خواجہ سراؤں کو ان کی ظاہری شناخت کے مطابق اندراج کرنے کا حق دینا بھی شامل ہے ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی طرف سے دیگر تجاویز کو بھی اس بل میں شامل کیا جا گا۔
علی نواز چوہان نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ بل میں ان والدین کے خلاف سخت اقدام بھی تجویز کیے جائیں گے جو اپنے خواجہ سرا بچوں کو قبول نہیں کرتے ہیں۔
" خواجہ سراؤں کو ان کے ماں باپ گھروں سے نکال دیتے ہیں اور وہ ان کو قبول نہیں کرتے ہیں اس مجوزہقانون میں بہتری کریں گے تاکہوالدین ان بچوں کو اپنائیت سے محروم نا کریں۔"
انہوں نے کہا معاشرے کے اس محروم طبقہ کے روز مرہ کے مسائل کے حل کے لیے ہر ضلع میں خواجہ سراؤں کے لیے محتسب مقرر کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
"اس کے لیے تجویز یہ ہے کہ خواجہ سراؤں کے لیے محتسب کا تقرر کیا جائے جو کم ازکم دسٹرکٹ جج سطح کا آدمی ہو ۔۔۔ وہ ان کے روزمرہ کے مسائل کو حل کرے گا لیکن کمیٹی کا خیال تھا کہ اس میں بندش نا رکھی جائے کہ عدلیہ سے ہی لوگ ہوں بلکہ کوئی اور بھی (محتسب) ہو سکتا ہے۔ ہم اس تجویز کا بھی مطالعہ کر رہے ہیں۔"
پاکستان کی سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہدایت کر چکی ہے لیکن اس برادری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود انھیں اپنے حقوق پوری طرح سے نہیں مل رہے جس میں خاص طور پر معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔