لبنان میں نامزد وزیرِ اعظم مصطفیٰ ادیب نے حکومت سازی میں ناکامی کے بعد اپنی نامزدگی سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا ہے۔
لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندرگاہ پر گزشتہ ماہ ایک طاقت ور دھماکے کے بعد وزیرِ اعظم حسان دیاب مستعفی ہو گئے تھے، جس کے بعد مصطفیٰ ادیب کو نیا وزیرِ اعظم نامزد کیا گیا تھا۔ اور وہ اپنی کابینہ تشکیل دینے کے لیے کوششیں کر رہے تھے۔
ہفتے کو مصطفیٰ ادیب نے ٹی وی پر اپنی تقریر کے دوران کہا کہ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت تشکیل نہ دیے جانے پر معذرت خواہ ہیں۔
لبنان کے صدر میشال عون نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ اگر فوری طور پر حکومت قائم نہ کی جا سکی تو ملک دوزخ بن جائے گا۔
صدر نے کابینہ میں فرقے کی بنیاد پر کوٹہ ختم کرنے کی بھی تجویز دی تھی۔
مصطفی ادیب متعدد سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ تاہم وہ حکومت کی تشکیل پر ان جماعتوں کے ساتھ کسی سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے۔
خیال رہے کہ بیروت میں دھماکے کے بعد پیدا ہونے والے بحران میں فرانسیسی صدر کی مداخلت کے بعد حکومت کی تشکیل کے لیے 13 اگست کو مصطفیٰ ادیب کو نامزد کیا گیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق فرانسیسی صدر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ ادیب کے مستعفی ہونے کی وجہ سیاسی جماعتوں کا ان سے عدم تعاون ہے۔
لبنان سے متعلق فرانس کے مرتب کردہ روڈ میپ میں نئی حکومت کرپشن پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرے گی اور لبنان کو ملنے والی بین الاقوامی امداد کو معاشی صورتِ حال بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ دھماکے سے قبل ہی لبنان کی معاشی صورتِ حال نمایاں طور پر خراب تھی اور شہری مبینہ کرپشن اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے حکومت سے نالاں تھے۔
مصطفی ادیب کا اپنے عہدے سے سبکدوشی کے بعد کہنا تھا کہ لبنان کو فرانسیسی منصوبہ ترک نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی فرانسیسی صدر کے خیر سگالی کے جذبے کو بھلانا چاہیے۔
'رائٹرز' کے مطابق مصطفیٰ ادیب کو کابینہ کی ازسرنو تشکیل میں مشکلات کا سامنا تھا۔ کیوں کہ ایران نواز تنظیمیں 'حزب اللہ' اور 'امل موومنٹ' نے کابینہ میں مالیات سمیت دیگر اہم وزارتوں کا مطالبہ کیا تھا۔
حکومت کی تشکیل کے لیے مصطفیٰ ادیب نے سیاسی رہنماؤں سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ تاہم وہ وزیروں کے چناؤ سے متعلق کسی معاہدے پر نہ پہنچ سکے۔
سابق لبنانی وزیرِ اعظم اور مصطفیٰ ادیب کے حامی سعد الحریری کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ ادب کی سبکدوشی پر جشن منانے والے بہت جلد پچھتائیں گے۔
خیال رہے کہ بیروت میں دھماکوں سے پہلے لبنانی پاؤنڈ مسلسل گر رہا تھا۔ اور اب اس کی قدر میں مزید گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔
لبنان کو 1970 کی دہائی کے بعد سے بد ترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ گو کہ فرانس کی کوششوں سے مختلف دھڑوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے کوشش جاری ہیں، لیکن تاحال اس میں کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔
ملک میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بیروت میں دھماکے کئی روز بعد بھی وہ شہری، جن کے مکانوں کو شدید نقصان پہنچا تھا، وسائل کی عدم دستیابی سے اپنے گھروں کی مرمت کرنے سے قاصر ہیں۔ جب کہ بہت سے افراد ابھی تک امداد سے بھی محروم ہیں۔
عالمی اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر سردیوں سے قبل بیروت کے شہریوں کی دوبارہ آباد کاری اور کی مکانوں کی مرمت کا کام مکمل نہ ہوا تو کوئی بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔