واشنگٹن —
امریکہ کی منظرِ عام پر آنے والی ایک خفیہ سرکاری دستاویز کے مطابق محکمہ انصاف نے ایسے امریکی شہریوں کے قتل کو جائز قرار دے رکھا ہے جن کے بارے میں امریکی حکومت کو یقین ہو کہ وہ 'القاعدہ' کے سرگرم رہنما ہیں۔
سولہ صفحات پر مشتمل اس خفیہ دستاویز میں امریکہ کی جانب سے 'القاعدہ' سے منسلک مبینہ شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کے استعمال کا قانونی جواز پیش کیا گیا ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت بیرونِ ملک موجود ایسے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی مجاز ہے جن کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ 'القاعدہ' کے سینئر رہنما ہیں اور امریکیوں کے قتل کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی میں شریک ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایسے کسی بھی امریکی شہری کو نشانہ بنانے سے قبل کسی باخبر اعلیٰ سطحی عہدیدار کو یہ تعین کرنا ہوگا کہ آیا اس شخص کی جانب سے واقعی امریکہ پر مہلک حملوں کا خطرہ ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ شخص کے قتل کا فیصلہ صادر کرنے سے قبل یہ طے کرنا ضروری ہوگا کہ اس کو زندہ گرفتار کرنا بظاہر ممکن نہیں ۔ دستاویز کے مطابق مشتبہ امریکی شہری پر حملے کی کاروائی کو جنگوں کے متعلقہ قوانین اور اصولوں کے مطابق کرنا ضروری ہوگا۔
خیال رہے کہ پیر کو امریکی سینیٹرز نے صدر براک اوباما سے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کانگریس کو ایسی تمام خفیہ قانونی دستاویزات فراہم کریں جو انہیں بیرونِ ملک کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کاروائیوں میں امریکی شہریوں کے قتل کے احکامات جاری کرنے کا مجاز بناتی ہیں۔
صدر اوباما کے دورِ صدارت کے دوران میں امریکہ نے بیرونِ ملک موجود القاعدہ کے شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں میں اضافہ کیا ہے جن کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
ایسے چند حملوں میں 'القاعدہ' کے بعض امریکی ارکان بشمول انور الاولکی اور سمیر خان کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
سولہ صفحات پر مشتمل اس خفیہ دستاویز میں امریکہ کی جانب سے 'القاعدہ' سے منسلک مبینہ شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کے استعمال کا قانونی جواز پیش کیا گیا ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت بیرونِ ملک موجود ایسے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی مجاز ہے جن کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ 'القاعدہ' کے سینئر رہنما ہیں اور امریکیوں کے قتل کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی میں شریک ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایسے کسی بھی امریکی شہری کو نشانہ بنانے سے قبل کسی باخبر اعلیٰ سطحی عہدیدار کو یہ تعین کرنا ہوگا کہ آیا اس شخص کی جانب سے واقعی امریکہ پر مہلک حملوں کا خطرہ ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ شخص کے قتل کا فیصلہ صادر کرنے سے قبل یہ طے کرنا ضروری ہوگا کہ اس کو زندہ گرفتار کرنا بظاہر ممکن نہیں ۔ دستاویز کے مطابق مشتبہ امریکی شہری پر حملے کی کاروائی کو جنگوں کے متعلقہ قوانین اور اصولوں کے مطابق کرنا ضروری ہوگا۔
خیال رہے کہ پیر کو امریکی سینیٹرز نے صدر براک اوباما سے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کانگریس کو ایسی تمام خفیہ قانونی دستاویزات فراہم کریں جو انہیں بیرونِ ملک کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کاروائیوں میں امریکی شہریوں کے قتل کے احکامات جاری کرنے کا مجاز بناتی ہیں۔
صدر اوباما کے دورِ صدارت کے دوران میں امریکہ نے بیرونِ ملک موجود القاعدہ کے شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں میں اضافہ کیا ہے جن کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
ایسے چند حملوں میں 'القاعدہ' کے بعض امریکی ارکان بشمول انور الاولکی اور سمیر خان کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔