رسائی کے لنکس

لیبیا کے ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے


لیبیا کے ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے
لیبیا کے ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے

جنگ میں زخمی ہونے والوں کے علاوہ ہسپتال کے عملے کو جس پر پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ ہے، دل کا دورہ پڑنے والے مریضوں، کار کے حادثوں میں ہلاک ہونے والوں اور روز مرہ کے عام کیسوں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔

لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کی وفادار فوجوں اور ان کا تختہ الٹنے کے جذبے سے سرشار فورسز کے درمیان جنگ جاری ہے اور ہسپتال لاشوں اور زخمیوں سے بھر گئے ہیں۔

بن غازی کے جلاحا کے 200 بستروں کے ہسپتال میں مریضوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ مشرقی لیبیا میں یہ سب سے بڑا ہسپتال ہے۔
نرس کورا فلپائن کی رہنے والی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چند ہفتے پہلے تک جب جنگ عروج پر تھی اس ہسپتال میں روزانہ سات لاشیں اور دس زخمی آتے تھے ۔ ان میں سے بہت سے نوجوان تھے جو سرکاری ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ ’’ جو کچھہ ہوا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ہم لاشیں دیکھتے تھے۔ بعض زخمیوں کا آدھا جسم غائب ہوتا تھا۔ بڑے ہولناک مناظر دیکھنے پڑتے تھے‘‘۔
ایک وارڈ کے بیڈ پر لیٹے ہوئےعبد الرحمٰن احمد کے قریب ان کے گھرانے کے لوگ موجود تھے۔ ان کا پورا جسم سفید پٹیوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس15 سالہ طالب علم نے بن غازی کے مشرق میں حکومت کی مخالف فورسزمیں شرکت کی تھی۔ جب قذافی کی حامی فورسزنے اس کے ٹرک پر آتشیں بم پھینکا تو اس طالب علم کے جسم کا 90 فیصد حصہ جل گیا۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ قذافی کے خلاف اس لیے جنگ کر رہا ہے کیوں کہ حکومت نے اس کے کزن کو 11 سال پہلے جیل میں ڈال دیا تھا اور تین بار عدالت کے احکامات کے باوجود اسے رہا نہیں کیا گیا ہے۔ وہ میدان جنگ میں واپس جانا چاہتا ہے۔
احمد نے کہا کہ اس نے اپنے بچپن سے ہی قذافی کو آمر اور ظالم حکمران پایا ہے۔ ’’لیبیا کا یہ لیڈر لوگوں کوہلاک کرتا اور ان پر ظلم توڑتا رہا ہے‘‘۔
ریڈ کراس کی خاتون ترجمان ایمان موعنکار(Iman Moankar) کہتی ہیں کہ بن غازی ہسپتال کا عملہ اپنے کام میں اتنا ہوشیار ہے کہ ان کے گروپ نے یہاں سے اپنی ایمرجینسی کی ٹیمیں واپس بلا لی ہیں۔

اب ریڈ کراس یہاں صرف سرجیکل کِٹس اور دوائیں وغیرہ فراہم کرتی ہے ۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ حزبِ اختلاف کے زیرِ کنٹرول شہر مصراتہ میں جو طرابلس کے مشرق میں 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور بن غازی کے مغرب میں کئی قصبوں میں جہاں شدید لڑائی ہو رہی ہے، حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ ’’ہماری ترجیح یہ ہے کہ جنگ کے متاثرہ ان علاقوں تک رسائی حاصل کر سکیں جہاں انسانی مصائب سے نجات دلانے کے لیے امداد اور امدادی کارکن بحفاظت نہیں جا سکتے تا کہ ضرورت مندوں کو فوری امداد فراہم کی جا سکے‘‘۔

حکومت کی مخالف نئی انتظامیہ کی صحت کی سہولتوں کے سربراہ، ڈاکٹر جبریل ال ہوویدی (Jabril al-Howeidi) کہتے ہیں کہ ان کا ہسپتال صحت کی بنیادی دیکھ بھال کا کام تو کر سکتا ہے لیکن شدید زخم جیسے ہڈیوں کا ٹوٹ جانا، سر میں زخم اور ریڑھ کی ہڈی کے زخم کا علاج نہیں کر سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الحال انہیں بیرونی عطیات دینے والے ملکوں سے کافی مقدار میں طبی سازو سامان مل رہا ہے۔’’ہمارے پاس میڈیکل سازو سامان کافی ہے۔ لیکن اگر یہ صورت حال ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک چلتی رہی، تو پھر ہمارے لیے بحران پیدا ہو جائے گا‘‘۔

جنگ میں زخمی ہونے والوں کے علاوہ ہسپتال کے عملے کو جس پر پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ ہے، دل کا دورہ پڑنے والے مریضوں، کار کے حادثوں میں ہلاک ہونے والوں اور روز مرہ کے عام کیسوں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔

یہاں وارڈ میں 26 سالہ مکینک عواد اجیلا بھی سر سے پیر تک پٹیوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ وہ اسی کار پر بمباری میں زخمی ہوئے تھے جس میں عبد الرحمٰن احمد کو زخم آئے تھے۔وہ ایک پرچم کو چومتے ہیں۔ یہ آزاد لیبیا کا پہلا پرچم ہے جسے مخالف فورسز نے قبول کر لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس پرچم کو ان کے جسم پر پھیلا دیا جائے۔ وہ واپس جا کر حکومت کی مخالف فورسز میں شامل ہونے کے لیے بے چین ہیں۔’’ وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں تین چار بار پھر جلنا پڑے تو وہ اس کے لیے، اور مسٹر قذافی سے جان چھڑانے کے لیے اپنا خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو تیار ہیں۔

اجیلا اور ان کے دوست کو مصر میں خصوصی ہسپتال میں منتقل کیا جا رہا ہے جہاں آگ سے جل جانے والے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ لیکن ان کے بستروں پر جلد ہی نئے مریض آ جائیں گے۔ لیبیا کے میدانِ جنگ سے روزانہ نئے مریض آتے رہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG