نیٹو نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ ان خبروں کی تحقیقات کررہی ہے کہ مشرقی شہر بریقہ کے قریب اتحادی افواج کے فضائی حملے کی زد میں لیبیا کے باغیوں کا ایک قافلہ آنے سے کم ازکم دس افرادہلاک ہوگئے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جمعے کو دیرگئے باغیوں کے قافلے میں شامل کسی شخص نے فضائی حملے شروع ہونےسے قبل طیارہ شکن توپ سے ہوا میں ایک فائر کیاتھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ فضامیں فائرنگ جشن منانے والے باغیوں نے کی تھی یامعمرقذافی کی وفادارفوجوں نے جو باغیوں کے اس گروپ کاراستہ روکنے کی کوشش کررہے تھے۔
عینی شاہدین کا کہناہے کہ انہوں نے جمعے کے فضائی حملے کے بعد کم ازکم چارجلتی ہوئی گاڑیاں دیکھی تھیں۔
باغیوں کا قافلہ بریقہ کی طرف بڑھ رہاتھا، جو بحرروم کے ساحل پر واقع تیل سے مالامال شہری علاقوں میں ایک ہے۔ فروری کے وسط سے، جب سے لڑائی شروع ہوئی ہے، یہ شہر کئی بار باغیوں اور حکومت کے کنٹرول میں جا چکاہے۔
باغی ، جن کی جنگی تربیت کا معیار انتہائی کم ہے، خود کو ایک منتظم فوج کی شکل میں یک جا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں اور سابقہ فوجی کمانڈروں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اگلے محاذوں پر قیادت کرکے ان کا ساتھ دیں۔
جمعے کے روز باغیوں کے ایک مضبوط گڑھ بن غازی میں حزب اختلاف کے ایک لیڈراور لیبیا کے سابق وزیر انصاف مصطفی عبدالجلیل نے فائر بندی کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی فوجی دستوں کو اس سے قبل لازمی طورپر ان شہروں اور قصبوں سے نکل جانا چاہیےجن پران کاکنٹرول ہے جب کہ باغی بھی اپنے زیر قبضہ علاقے خالی کردیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے مغربی شہروں میں رہنے والے عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مقدر کاخود فیصلہ کرسکیں۔
قذافی حکومت نے فائربندی کی تجویز کو ایک چال قراردیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ طرابلس میں حکومت کے ایک ترجمان نے نامہ نگاروں سے کہا کہ باغیوں کے مطالبے ناقابل قبول ہیں۔