صدر باراک اوباما نے لیبیا میں ایک حملے میں امریکی سفیر اور اُن کے تین ماتحت افسران کی ہلاکت کی شدید مذمت کی ہے۔
مقامی حکام نے کہا ہے کہ مقتول سفیر کرسٹوفراسٹیونز اور اُن کے عملے کے ارکان کو مشرقی شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملے کے بعد محفوظ مقام کی طرف منتقل کیا جارہا تھا جب اُن کی گاڑی پر راکٹ حملہ کیا گیا۔
لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں منگل کو امریکی قونصلیٹ پر حملے میں ملوث افراد امریکہ میں بننے والی ایک فلم میں مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کا تمسخر اُڑانے کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے جنہوں نے عمارت پر راکٹ داغنے کے بعد اُسے نذر آتش کردیا۔
بن غازی میں احتجاجی مظاہرے سے قبل منگل کی صُبح مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بھی متنازع فلم کے خلاف امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے قونصلیٹ پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے اشتعال انگیز مواد کی اشاعت کے ردعمل میں امریکی سفارتی مشن کے خلاف کی گئی اس ’’قابل ملامت‘‘ کارروائی کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
’’امریکہ مذہبی عقائد کو بدنام کرنے کی کسی بھی بین الااقومی کوشش کو افسوس ناک سمجھتا ہے۔۔۔ لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس نوعیت کے پرتشدد اقدامات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
متنازعہ فلم کی تشہیر میں امریکی پادری ٹیر جونز پیش پیش ہے جس کے قران کو نذر آتش کرنے کے قابل مذمت فعل کے خلاف اور نیویارک میں نائن الیون حملے کے مقام ’’گراؤنڈ زیرو‘‘ کے قریب ایک مسجد کی تعمیر کی مخالفت نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو شدید احتجاج کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں امریکی سفارت خانے کے باہردوہزار سے زائد افراد نے جمع ہو کر متنازع فلم کے خلاف مظاہرے کیے اوردیوار پرچڑھ کرعمارت پر لہرانے والے امریکی جھنڈے کو اُتار پھینکنے کے بعد وہاں ایک اسلامی بینر آویزاں کردیا۔
اطلاعات کے مطابق متنازع فلم کے لیے مالی وسائل امریکہ میں مقیم ایک مصری باشندے نے فراہم کیے ہیں جس کا تعلق مصرکی اقلیتی عیسائی برادری سےہے۔
مقامی حکام نے کہا ہے کہ مقتول سفیر کرسٹوفراسٹیونز اور اُن کے عملے کے ارکان کو مشرقی شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملے کے بعد محفوظ مقام کی طرف منتقل کیا جارہا تھا جب اُن کی گاڑی پر راکٹ حملہ کیا گیا۔
لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں منگل کو امریکی قونصلیٹ پر حملے میں ملوث افراد امریکہ میں بننے والی ایک فلم میں مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کا تمسخر اُڑانے کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے جنہوں نے عمارت پر راکٹ داغنے کے بعد اُسے نذر آتش کردیا۔
بن غازی میں احتجاجی مظاہرے سے قبل منگل کی صُبح مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بھی متنازع فلم کے خلاف امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے قونصلیٹ پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے اشتعال انگیز مواد کی اشاعت کے ردعمل میں امریکی سفارتی مشن کے خلاف کی گئی اس ’’قابل ملامت‘‘ کارروائی کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
’’امریکہ مذہبی عقائد کو بدنام کرنے کی کسی بھی بین الااقومی کوشش کو افسوس ناک سمجھتا ہے۔۔۔ لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس نوعیت کے پرتشدد اقدامات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
متنازعہ فلم کی تشہیر میں امریکی پادری ٹیر جونز پیش پیش ہے جس کے قران کو نذر آتش کرنے کے قابل مذمت فعل کے خلاف اور نیویارک میں نائن الیون حملے کے مقام ’’گراؤنڈ زیرو‘‘ کے قریب ایک مسجد کی تعمیر کی مخالفت نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو شدید احتجاج کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں امریکی سفارت خانے کے باہردوہزار سے زائد افراد نے جمع ہو کر متنازع فلم کے خلاف مظاہرے کیے اوردیوار پرچڑھ کرعمارت پر لہرانے والے امریکی جھنڈے کو اُتار پھینکنے کے بعد وہاں ایک اسلامی بینر آویزاں کردیا۔
اطلاعات کے مطابق متنازع فلم کے لیے مالی وسائل امریکہ میں مقیم ایک مصری باشندے نے فراہم کیے ہیں جس کا تعلق مصرکی اقلیتی عیسائی برادری سےہے۔