’’یہ بستیاں ہیں کہ مقتل، دعا کئے جائیں
دعا کے دن ہیں، مسلسل دعا کئے جائیں‘‘
ہمارے ارد گرد ہماری ہی اس دنیا، ہمارے گلوبل ویلج میں کرونا وائرس کتنی بیماری۔ کتنا آزار۔ کتنی تنہائی اور کتنی قیمتی جانوں کا ضیاع لے آیا۔ سوچیں تو دور تک وحشت، خوف اور جبر کا دور دورہ ہے۔
آنے جانے، سفر کرنے، دوستوں کے ساتھ ملاقات کے لئے جاتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی خیال نہ آیا تھا کہ کبھی یہ سب آزادیاں کسی دوسرے دور کا قصہ معلوم ہوں گی۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے 2020 کی آمد پر نئے سال کی تقریبات تھیں۔ روشنیاں اور رنگ تھے۔ گلیاں کوچے اور شہر سب ہی آباد تھے۔ چہل پہل اور رونقیں تھیں اور نئے سال کی آمد پر نئے عزم تھے جو پچھلے برسوں میں پوری کوششوں کے باوجود پورے نہ ہو سکے تھے۔
مجھ سمیت دور دراز بسنے والے برسوں بعد ایک بار پھر ان وطنوں کو لوٹنے والے تھے جنہیں ان کے روزگار بہت دور لے آئے تھے۔ بات تو سچ ہے کہ ہم سب سوچتے ہیں اپنے اپنے انداز میں۔ اپنے مسئلوں کے بارے میں۔ اپنے ارادوں کے بارے میں اور اپنے آنے والے برسوں کے بارے میں۔
میری سوچ آپ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ میرا اظہار بھی آپ کے احساس سے جدا ہو سکتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی سوچ سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ مختلف ماحول، مختلف حالات اور مختلف نوعیت کے مسائل ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہم اپنے اپنے پس منظر کے ساتھ ان کے بارے میں سوچتے بھی ہیں۔
یہ تو ہم بات کر رہے ہیں اپنی روز مرہ سوچوں کی لیکن ہم ہی میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ہم سب لوگوں کی سوچوں کو شکل دیتا ہے۔ لفظوں اور تصویروں میں ہماری خوشیوں یا غموں کو سمو کر انہیں آفاقی صورت دے دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنے گرد و پیش اور حالات سے تحریک لیتے ہیں اور یوں شعر و ادب کی تخلیق کرتے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں لکھتے ہیں لگتا ہے ہمارے ہی لئے کہہ اور لکھ رہے ہیں۔ کرونا وائرس نے دنیا بھر میں جو تباہی اور ہولناکی پھیلائی ہے، اس کے بارے میں ہم سب تو اپنے اپنے انداز میں سوچتے ہیں لیکن ایک حساس شاعر اور دانشور آج کے اس المیے کے بارے میں کیا سوچتا ہے، ہم نے یہی جاننے کے لئے شعر و ادب کے ایک بڑے نام سے بات کرنے کو سوچا کہ کرونا وائرس کے بعد کی زندگی کے بارے میں وہ کس طرح سوچتے ہیں۔
ہم میں سے کم ہی لوگ ہوں گے جو افتخار عارف کا نام نہیں جانتے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’کسوٹی‘‘ سے لیکر ادب و فن کے ہر بڑے ادارے کی باگ ڈور سنبھالنے والے افتخار عارف نے اس سوال کے جواب میں کہ کرونا وائرس کے بعد زندگی کا انداز کیا ہو گا کہا:
’’انسان اپنی سرشت نہیں بدلتا۔ مشکلیں، آزمائشیں، امتحان آتے ہیں ۔توبہ کرتے اور ہم پھر ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ مگر اب کے شاید صورت مختلف ہے پہلے مثلا پچھلی صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں۔ انتہائی خون آشام۔ مگر وہ کچھ علاقوں میں محدود رہی تھیں۔ وقت گزرا اور ہم پھر ویسے ہی ہو گئے۔ کتابیں لکھی گئیں۔ فلمیں بنیں۔ ہجرتین ہوئیں۔ مگر ہم پہلے سے زیادہ غیر ذمہ دار ہو گئے اور اب ساری دنیا موت کے مقابلے پر خود کو بے بس پا رہی ہے۔ گھروں میں دولت کے، چیزوں کے انبار لگے ہیں مگر سب بے توقیر زندگی، محصور اور مجبور زندگی۔ انسان نیچر کی طرف پلٹے گا؟ زندگی کا احترام کریگا؟‘‘
اور یہ سوال ہمارے سامنے رکھتے ہوئے اپنے وقت کا منفرد شاعر کہتا ہے۔
’’یہ بستیاں ہیں کہ مقتل، دعا کئے جائیں
دعا کے دن ہیں، مسلسل دعا کئے جائیں‘‘
ایک دانشور اور الگ سوچ رکھنے والے شاعر کے افکار نے ہمارے سامنے کچھ اور سوال لا کھڑے کئے۔ افتخار عارف صاحب کی سوچ سے کچھ اور مستفید ہونے کے لئے ہم نے پوچھا کہ آپ کے ان سوالوں کے جواب سے کیا یہ سمجھیں کہ زندگی پوری شان سے اپنی قدرو قیمت منوائے گی؟ کیا شاعر اور ادیب اس وحشت کے بعد کچھ اور خوبصورتی کی باتیں کہیں گے؟
کیا کرونا وائرس کے بعد تخلیق ہونے والا ادب ایک بار پھر محبت کی داستانیں رقم کرے گا؟ آنے والے دن ہمارے لئے کیا لائیں گے؟ تو شاعر اور دانشور افتخارف عارف کا کہنا تھا ۔
’’غالب کو وبائےطاعون میں مرنا پسند نہیں تھا۔ ہم غالب نہیں مگر زندگی سے محبت ہمیں بھی ہے۔ ہزار طرح کے خوبصورت لوگ، ہزاروں کتابیں، لاکھوں نغمے، ابھی ان کو دیکھنا، ملنا، سننا باقی رہتا ہے۔
ستارے زیادہ روشن ہوگئے ہیں۔ آسمان کے نیلا ہونے کی تصدیق کے لئے گھر کی کھڑکیاں کافی۔ صحن کے خانہ باغیچے میں جانے کہاں سے چڑیاں آگئی ہیں جو حیرت اور شرارت سے چہچہاتی رہتی ہیں۔ ایسے میں کون یہاں سے جا پائے گا۔ گیبریئل گارسیا مارکیزکا ناول love in the days of cholera پڑھنے کے لئے نکالا ہے پھر سے۔ پڑھیں گے انشااللہ۔
افتخار عارف کی زندگی سے ایک بار پھر محبت کرنے کی خواہش نے ذہن کے کسی دور کونے میں چھپی پابلو نرودہ کی ایک نظم کی چند لائینیں یاد دلا دیں 100 Love Sonnets سے
’’داستان کے اس حصے میں میں وہ ہوں
جو مرتا ہے۔ واحد ایک۔ اور میں محبت سے مروں گا
کیونکہ مجھے تم سے محبت ہے
آگ میں اور خون میں ‘‘