کیلی فورنیا میں کرونا وائرس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر لاک ڈاؤن کا فوری فیصلہ اس وبا سے زیادہ تر لوگوں کو محفوظ رکھنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کیلی فورنیا کووڈ 19 کے مریضوں کے لحاظ سے امریکہ کی ریاستوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ نیو یارک اب بھی اس وقت پہلے نمبر پر ہے۔
امریکہ کی 50 ریاستوں میں آبادی کے لحاظ سے کیلی فورنیا سب سے بڑی ریاست ہے۔ 1968 میں اسے گولڈن ریاست کا نام دیا گیا۔ ہر موسمِ بہار اس کے طول و عرض میں کھلنے والے پوپی کے گولڈن پھول اور اس کا گولڈن گیٹ برج سب اس کے ساحلوں پر غروب ہوتے سورج کی نارنجی کرنوں میں نہا جاتے ہیں۔ 1848 میں یہاں سونا دریافت ہوا۔ اور اب یہ امریکہ کا سائنسی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ اس کی سلیکان ویلی ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کر رہی ہے اور ہالی ووڈ سٹوڈیوز فلمی دنیا میں ثانی نہیں رکھتے۔
مارچ کے مہینے میں اس ریاست میں کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی تشویشناک خبریں آ رہی تھیں۔ اس کے ساحل پر ڈائمنڈ پرنسس نامی کروزشپ لنگر انداز ہو چکا تھا اور اس وقت اس میں کووڈ 19 کے 21 مریض تھے۔
صورتِ حال قابو سے باہر ہوتی مگر کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس سے پہلے ہی ریاست بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ انتہائی ضروری عملے کے سوا باقی سب لوگ گھروں میں محصور ہو گئے اور یوں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مدد ملی۔
کیلیفورنیا میں کووڈ ٹیم اور سٹیٹ ہیلتھ بورڈ کے رکن پلمونالوجسٹ ڈاکٹر آصف محمود کہتے ہیں کہ "کیلیفورنیا کی انتظامیہ نے کرونا وائرس کو روکنے کے جو اقدامات کئے ان سے بہت فائدہ ہوا۔ نہ صرف گورنر نے جلد اقدامات کئے بلکہ جو مقامی مئیر تھے انہوں نے بھی فوری ایکشن لیا۔ ان میں سین فرانسسکو، لاس اینجلس اور دیگر بڑے شہروں کے مئیر شامل ہیں۔ اور پھر انہیں ریاست کی مدد بھی حاصل تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کیلیفورنیا اس قابل ہے کہ اس نے پانچ سو وینٹیلیٹر نیویارک کو دیئے ہیں اور کولوراڈو اور وسکانسن کو بھی دئیے ہیں۔ اور پھر بھی اتنے وینٹی لیٹر بچ رہے ہیں کہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو تو استعمال کیے جا سکتے ہیں۔"
کیلیفورنیا کا موسم اکثر معتدل رہتا ہے۔ موسمِ گرما خشک اور گرم اور سرما میں بعض علاقوں میں برف باری بھی ہو جاتی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اب تک یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ موسم گرم ہو گا تو کرونا وائرس کی عالمی وبا کے اثرات بھی کم ہو جائیں گے مگر ڈاکٹر آصف محمود کہتے ہیں کہ یہ محض خیال ہے کہ فلو کی طرح یہ وائرس موسم گرم ہوتے ہی ختم ہو جائے گا۔ بلکہ جن علاقوں میں موسم گرم تھا ان میں بھی یہ وائرس پھیلا ہے۔ تاہم یہ امید ضرور کی جا رہی ہے کہ ہو سکتا ہے جون یا جولائی میں اس کا زور کم ہو جائے اور پھر موسمِ خزاں میں یہ پھر ابھر کر آئے۔
کرونا وائرس کے پھیلتے ہی دنیا بھر کی معیشتوں کو ابتری کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ ملک کو جلد از جلد کھولنے کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف محمود کہتے ہیں کہ جن ریاستوں میں کرونا وائرس کی وبا زیادہ پھیلی ہے وہ شاید لاک ڈاؤن فوری ختم کرنے کا فیصلہ نہ کر سکیں۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ آیا جو لوگ کرونا وائرس کا شکار ہو کر صحت یاب ہو چکے ہیں وہ اس سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے ہیں۔ ڈاکڑ آصف محمود کہتے ہیں، "اس کیلئے اینٹی باڈیز ٹیسٹ پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹیسٹ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور سال یا دو سال کے عرصے میں یہ پتہ چلے گا کہ یہ لوگ کتنا محفوظ ہوئے۔ کتنے لوگ اسے برداشت کر پائیں گے۔ مگر لوگوں کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی۔ یہ تبدیلی کس حد تک ہو گی اس کے بارے میں تو وقت کے ساتھ ہی کچھ پتہ چلے گا۔"
کرونا وائرس کا خوف معاشرتی زندگی کو کیسے تبدیل کرتا ہے اس کا علم تو وبا کے تھمنے کے بعد ہی ہو گا مگر سہمی اور بے یقینی کی فضا جلد ختم ہو تی نظر نہیں آتی۔