مشرقِ وسطیٰ میں بڑی جنگ ہوئی تو بھارت کا کیا مؤقف ہو گا؟
بھارت کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر مسلسل تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس نے تمام فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سفارت کاری اور مذاکرات سے تنازعات کو حل کریں۔
نئی دہلی میں اس بات پر گفتگو ہو رہی ہے کہ اگر صورتِ حال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو تمام فریقوں سے اپنے تعلقات کے پیشِ نظر بھارت کا کیا مؤقف ہونا چاہیے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر صورتِ حال اور خراب ہوتی ہے اور ایران اور اسرائیل میں باضابطہ جنگ چھڑ جاتی ہے تو بھارت کو متوازن اور غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔
ان کا خیال ہے کہ اس نے یوکرین روس تنازع میں جو پالیسی اپنائی تھی وہی یہاں بھی اپنائے گا۔
یاد رہے کہ ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے یہ حملہ کیا ہے۔
حماس کے اسرائیل پر حملے کا ایک سال، اجتماعی تکلیف کی یاد تازہ کرتا ہے
سات اکتوبر 2023 کے حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کا ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اسرائیل، غزہ، لبنان اور خطے میں شہریوں کی ’’ناقابل بیان تکلیف‘‘ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی علاج معالجے، اور تحفظ کے حق پر زور دیا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ حماس اور دیگر جنگجو گروپوں کے سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل کے غزہ سے ملحقہ علاقوں پر حملے کے بعد خطے میں تنازع بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے غزہ اور لبنان میں بڑی تعداد میں شہریوں کی جانیں گئی ہیں۔ جب کہ غزہ، مغربی کنارے، اور اسرائیل کے علاوہ اب لبنان میں بھی لاکھوں افراد کو گھر بدری کا سامنا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اسرائیل کے لیے ترجمان مائیکل تھیرین نے جنیوا میں جمعے کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل کے لیے سات اکتوبر کا حملہ نو ستمبر 2001 کے امریکہ پر القاعدہ کے حملے کے مترادف ہے۔