وفاقی وزیرِ قانون نے آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کردیا
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کردیا ہے۔
اس سے قبل وزیرِ قانون نے معمول کی کارروائی معطل کر کے آئینی ترمیم کے لیے سپلیمینٹری ایجنڈا ٹیک اپ کرنے کی درخواست کی تھی۔
وفاقی وزیرِ قانون بل میں تجویز کی گئی ترامیم پر اظہارِ خٰیال کر رہے ہیں۔
اس سے قبل انہوں نے کابینہ اجلاس سے ترمیمی بل کی منظوری کے بعدمیڈیا سے بات چیت میں بل کے اہم نکات بیان کیے تھے۔
’چیف جسٹس فائز عیسیٰ مدت پوری کرکے چلے جائیں گے‘
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس اپنی مدت پوری کرکے چلے جائیں گے۔
سینیٹ میں آئینی ترمیمی بل پر بات کرتے ہوئے وزیرِ قانون نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ سے تین ملاقاتیں ہوئیں جس میں انہوں نے کہا کہ وہ کسی ایکسٹیشن میں دل چسپی نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں بہت پراپیگنڈا کیا گیا۔
ہمارا کوئی سینیٹر ترمیم کی منظوری کے لیے ووٹ دے تو اسے شمار نہ کیا جائے: بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کی پیش کردہ ترمیم کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس پر سینیٹرز کے دستخط لیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس ترمیم کی منظوری کے لیے ہمارے سینیٹرز میں سے کوئی ووٹ کرے تو آرٹیکل 63 اے کے تحت اس کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔
علی ظفر نے کہا کہ ہمیں عمران خان سے مشاورت کا موقع نہیں دیا گیا اس لیے ہم اس ترمیم کی حمایت نہیں کرسکتے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر علی ظفر نے کہا کہ آئینی ترمیم کا جو مسودہ آیا ہے اسے ایوان میں موجود لوگوں کی اکثریت نے پڑھا تک نہیں۔ اگر اس طرح ترمیم کی جائے گی تو یہ جمہوریت کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بل کے مسودے میں بہت سنجیدہ خامیاں ہیں جنھیں درست کرنے میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آئینی عدالت بنانے کے بجائے اسے آئینی بینچ کا نام دے دیا گیا اور اسے بنانے کا جو عمل تجویز کیا گیا ہے کہ وہ حکومت کے ہاتھ میں ہوگا اور یہ اپنی مرضی کے جج اس میں بٹھائیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ چیف جسٹس کے لیے سینیارٹی کا اصول طے کیا گیا تھا اور اس پر عمل نہ کرنا ہو تو اس کے لیے بھی کوئی قواعد بنائے جاتے ہیں جو اس بل میں واضح نہیں ہیں۔ آئینی بینچ میں کون سے آئینی امور جائیں گے اس پر بھی کنفیوژن ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے جدا نہیں کرتا۔ رضا مندی اور اتفاقِ رائے نہیں ہوگا تو ایسا آئین اپنی موت مر جائے گا اور قوم بھی دہائیوں پیچھے چلی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب بھی آئین یا آئینی ترمیم مسلط کیے گئے تو اس کے بعد مارشل لا آئے۔ جس طرح آئین اتفاق رائے سے بنتا ہے اسی طرح اس میں ترمیم بھی باہمی اتفاق سے ہونی چاہیے۔
مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں کیا ہے؟
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کے سینیٹ میں پیش کیے گئے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں 26 ترامیم شامل ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق عدلیہ سے ہے۔
مسودے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے اور جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔سینیئر ترین جج ان بینچر کا پریزائڈنگ جج ہو گا۔
ترمیم میں تجویز دیے گئی ہے کہ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔
آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔آرٹیکل 186 کے تحت ایڈوائزری اختیارات بھی آئینی بینچز کے ہوں گے۔
بل میں چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بل کے مطابق پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے۔ کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔
وزیرِ قانون کے پیش کردہ بل میں چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تجویز دی گئی ہے۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پہلی مرتبہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے تین دن قبل نام بھجوایا جائے گا۔ بعد ازاں چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی 14 روز قبل نام بھجوائے گی۔پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینیٹ ہوں گے۔
آئینی ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی۔چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کی گئی ہے۔
بل کے مطابق آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔
سینیٹ میں پیش کیے گئے بل کے مطابق جوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔
سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔چیف جسٹس کی زیر صدارت کمیشن میں آئینی بینچز کا پریزیڈنگ جج بھی ہوگا۔کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔
بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ عدالتی کمیشن کا حصہ ہوں گے۔سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔
مسودے میں آرٹیکل 38 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے۔ یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا۔
آرٹیکل 48 میں ترمیم تجویز کے مطابق وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔
چیف الیکشن کمشنر یا رکن ریٹائرمنٹ کے بعد نئے تقرر تک کام جاری رکھے گا۔
آرٹیکل 63 اے میں مجوزہ ترمیم نکال دی گئی۔