لیاری شہر ِقائد کراچی کا وہ علاقہ ہے جہاں ان دنوں لوگ دن میں بھی جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ پچھلے تین دنوں سے یہ علاقہ دن رات فائرنگ، راکٹ حملوں اور دستی بم دھماکوں سے گونج رہا ہے۔ پے در پے حملوں میں پیر کی رات تک صرف لیاری میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔۔ مرنے والوں میں ایک کم عمر بچی بھی شامل ہے۔
ہنگورہ آباد، لیاری میں مقیم ایک خاتون صحافی مفلحہ رحمن نے وائس آف امریکہ کو فون پر بتایا کہ مسلسل دھماکوں اور اتوار و پیر کی درمیانی شب ہونے والی شدید ترین فائرنگ کی آوازوں سے رہائشوں کے کان بند ہوچکے ہیں اور خود انہیں یوں لگ رہا ہے کہ جیسے دماغ پھٹ جائے گا۔
ان کی جانب سے دی گئی اطلاعات کے مطابق علاقے میں دوگروپس ’کچھی رابطہ کمیٹی‘ اور ’پیپلز امن کمیٹی‘ کے درمیان گینگ وار کو تین دن مکمل ہوگئے ہیں۔ ان دونوں گروپس کو مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور گینگ کا اصل سبب بھتہ خوری کے لئے جنگ ہے۔
مفلحہ رحمن نے بتایا کہ ان کے والد عبدالرحمن بھی گزشتہ سال اسی نوعیت کی فائرنگ کی زد میں آکر ناگہانی موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی اور دیگر علاقہ مکین بھی اپنے مکانات خالی نہیں چھوڑ سکتے ورنہ انہیں ڈر ہے کہ کہیں جرائم پیشہ افراد کا ان کے مکانات پر قبضہ نہ ہوجائے۔
مفلحہ کا کہنا ہے کہ، ’رات کے آٹھ بجتے ہی علاقے پر علاقے پر ہُو کا عالم ہوتا ہے۔ لوگ گھروں میں قید ہوجاتے ہیں۔ سیکورٹی اداروں کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا۔ اس پر ستم یہ کہ علاقے کی لائٹ بندکردی جاتی ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ بھی یہاں کا معمول ہے۔‘
علاقے کے ایک اور دیرینہ رہائشی نے نام نہ بتانے کی شرط پر وی او اے کے نمائندے کو بتایا کہ علاقے میں عقوبت خانے بھی موجود ہیں جہاں مخالف گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو لایا جاتا اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے کئی بار لیاری میں آپریشنز کئے ہیں لیکن آپریشنز سے پہلے ہی جرائم پیشہ افراد کو اس کی خبرمل جاتی ہے لہذا جب تک پولیس یا دیگر سیکورٹی ادارے یہاں تک پہنچتے ہیں، جرائم پیشہ افراد زیر ِزمین چلے جاتے ہیں ۔
پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کی ناکامی کی کئی اور وجوہات بتاتے ہوئے ایک بزرگ خاتون زلیخاں بائی کا کہنا ہے کہ پولیس اور رینجرز کے پاس اتنے جدید ہتھیار اور دیگر اسلحہ نہیں جتنا جدید اور دور تک مار کرنے والا اسلحہ جرائم پیشہ افراد کے پاس ہے۔ وہ لوگ علاقے کی گلی گلی اور چپے چپے سے واقف ہیں، وہ وار کرتے اور ان تنگ گلیوں میں چھپ جاتے ہیں۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارے ان گلیوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے، پہنچ جائیں تو انہیں گھیرے میں لے لیا جاتا ہے۔
سول اسپتال میں زیر ِعلاج فائرنگ کے ایک زخمی اسلم نے وی اواے کو بتایا، ’کشیدگی کی شروعات ہفتے کی دوپہر ایک بجے سے ہوئی جب کھاردر میں اچانک فائرنگ شروع ہوگئی جس سے کاروباری مراکز اور علاقہ بھر کی دکانیں بند ہو گئیں۔ میں کھادر مارکیٹ میں ریڑھی پر ڈرائی فروٹ بیچتا ہوں۔‘ اسلم کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ریڑھی پر کھڑا تھا کہ سامنے سے چند نقاب پوش افراد آئے اور فائرنگ شروع کردی جس سے اس کی ٹانگ زخمی ہوگئی۔وہ کافی دیر تک تڑپتا رہا۔ فائرنگ رکنے کے بعد ہی اسے سول اسپتال لایا گیا۔۔
اسلم کے مطابق، ’شام ہوتے ہی فائرنگ کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا جو وقفے وقفے سے رات بھر جاری رہا۔ اتوار کی صبح اس میں شدت آگئی۔ اسی دوران ہنگورہ آباد میں دستی بموں سے بھی حملے کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔ اتوار کی شام چھ بجے ہنگورہ آباد میں فائرنگ رکی تو جونا مسجد، پرانی کلری، بہار کالونی، جمعہ بلوچ روڈ اور پھول پتی لین میں فائرنگ شروع ہوگئی۔
بعض علاقہ مکینوں نے وی او اے کو بتایا کہ اتوار کی رات متعدد گھرانوں کو ہنگورہ جماعت خانہ میں پناہ لینا پڑی۔ ہنگورہ آباد روڈ کے مکینوں کے مطابق اب تک کم از کم 20 دستی بموں کے حملے ہوچکے ہیں۔متاثرہ علاقوں میں بہار کالونی، نیاآباد، موسیٰ لین، آگرہ تاج اور کھارادر شامل ہیں۔
اس صورتحال کے خلاف علاقہ مکینوں نے کئی جگہ شدید احتجاجی مظاہرے بھی کئے۔ ایسے ہی ایک مظاہرے کی شرکا ء فرزانہ، مریم، عائشہ اور فریدہ نے حکومت سے علاقے میں جاری گینگ وار کے مکمل خاتمے کی اپیل کی۔
مظاہرے اور احتجاج کے بعد رینجرز نے آگرہ تاج کے بیرونی اور اندرونی راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں اور ہنگورہ آباد سے تین نوجوانوں کو گرفتار بھی کیاہے۔
حالات و واقعات کی بنیاد پر جمع کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق لیاری میں رواں سال جنوری سے مئی تک ایک سو تینتالیس افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں جبکہ تیس افراد کی بوری بند لاشیں برآمد ہوچکی ہیں۔
نمائندے کو موصولہ اطلاعات کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب بڑے پیمانے پر رینجرز کی جانب سے آپریشن شروع کئے جانے کا امکان ہے۔