فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کا مطالبہ کیا ہے۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں صدر عباس نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے لیے درخواست انہوں نے سیکریٹی جنرل بان کی مون کے پاس جمع کرادی ہے.
تقریر سے پہلے جنرل اسمبلی میں صدر عباس کا شاندار استقبال کیا گیا اور ارکان نے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔ صدر عباس نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ یہ نئی فلسطینی ریاست چار جون 1967 کی سرحدوں پر مبنی ہوگی اور اس کا صدر مقام القدس شریف ہوگا۔
صدر عباس کے خطاب کے دوران جنرل اسمبلی کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور تقریر کے دوران کئی مقامات پر سامعین نے تالیاں بجائیں۔
انہوں نے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کیا کہ وہ اس درخواست کو جلد از جلد سلامتی کونسل کے سامنے پیش کر یں اور ساتھ ہی سلامتی کونسل کے ارکان سے گزارش کی کہ وہ اس درخواست کے حق میں ووٹ ڈالیں۔ ایک اطلاع کے مطابق، بعد ازاں، سیکریٹری جنرل بان کی مون نے قرار داد کو سلامتی کونسل میں جمع کرادیا ہے۔
صدر عباس کی تقریر کے بعد اسرئیلی وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں کہا کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کی حمایت کرے گا لیکن مذاکرات کے ذریعے اور اپنی سلامتی کی ضمانت کے بعد۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد امن کے عمل کو متاثر کرے گی۔
صدر عباس نے اسرائیل کو ایک غاصب طاقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی علاقوں پر کنٹرول “نوآبادیاتی قبضے” کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقوں پر مسلسل قبضے سے امن کا عمل ختم ہوچکا ہے اس لیے وہ اقوام متحدہ کے ذریعے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی یکطرفہ کوشش پر مجبور ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس میں ضمیر کی معمولی سی بھی رمق موجود ہے وہ فلسطینی ریاست کو مسترد نہیں کرسکتا۔ جب صدر عباس نے بان کی مون کو پیش کی گئی قرارداد کی کاپی دکھائی تو ہال میں زبردست تالیاں بجائیں گئیں۔
اس کے علاوہ صدر عباس نے اقوام متحدہ کے ممالک سے درخواست کی کہ ممالک وہ فلسطین کو باقاعدہ ریاست تسلیم کریں ۔ کچھ ممالک پہلے ہی فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کر کے اس سے سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 63 سال کی جدوجہد کے بعد ‘اب بہت ہو چکا’ اور اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی بھی آزادی کے ساتھ معمول کی زندگی گزاریں۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور روس پر مشتمل مشرقِ وسطیٰ کے متعلق چار فریقی گروپ کے سفارت کاروں کا ایک اجلاس جمعہ کو منعقد ہوگا جس میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی دوبارہ بحالی پر غور کیا جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل سلامتی کونسل کے ارکان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے حصول کے لیے فلسطینی درخواست کی یا تو مخالفت کریں یا اس پر ہونے والی رائے شماری میں حصہ نہ لیں۔
صدر اوباما نے فلسطینی صدر کو دو ٹوک الفاظ میں اقوام متحدہ میں اس درخواست کو جمع کرانے سے منع کیا تھا۔ جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ علاقے میں امن اور فلسطینی ریاست کا قیام قرارداد سے نہیں بلکہ اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان مذاکرات سے ہوگا۔
تاہم اگر فلسطینی اپنی درخواست کے حق میں خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تب بھی انہیں عالمی ادارے کی مکمل رکنیت ملنے کے امکانات معدوم ہیں کیوں کہ امریکہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ فلسطین کی اس قرارداد کو 'ویٹو' کردے گا۔
سلامتی کونسل مذکورہ درخواست پر غور کرنے میں کئی ہفتے لگا سکتی ہے جس کے دوران فریقین کو سفارت کاری کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔ قرارداد کے مسترد ہونے کی صورت میں فلسطینی انتظامیہ عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی سے درخواست کرسکتی ہے کہ فلسطین کو عالمی ادارے میں ووٹ کے حق سے محروم مبصر ریاست کا درجہ دے دیا جائے۔
ادھر ویسٹ بینک میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینی مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں ایک فلسطینی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
دریں اثناء اسرائیلی وزارتِ دفاع کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ ملک میں سکیورٹی ہائی الرٹ کیے جانے کے بعد اسرائیلی افواج، سرحدی محافظ اور پولیس باہم رابطے میں رہیں گے جبکہ حساس علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے اضافی دستے تعینات کیے جارہے ہیں۔
بدھ کو عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی کے جاری اجلاس سے خطاب میں امریکی صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا حصول "بیانات اور اقوامِ متحدہ میں قراردادوں" کے بجائے فریقین کے درمیان براہِ راست مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
امریکی صدر کے اس بیان کے خلاف جمعرات کو مغربی کنارے کے شہروں راملہ اور نابلوس میں سینکڑوں فلسطینی باشندوں نے احتجاج کیا تھا۔ مظاہرین نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر امریکی صدر کے خلاف نعرے درج تھے اور وہ صدر اوباما پر اسرائیل کی پشت پناہی کا الزام عائد کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ جمعرات کو امریکی ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کے نائب سربراہان نے ایک بار پھر خبردار کیا تھا کہ اگر فلسطینی رہنماؤں کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے حصول کی کوشش کی گئی تو امریکی کانگریس فلسطینیوں کو دی جانے والی امریکی امداد اور باہمی تعاون کے دیگر امور کا "ازسرِ نو جائزہ" لے گی۔
تاہم فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردوان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔
ترک وزیرِاعظم نے موقف اختیار کیا ہے کہ اسرائیلی رہنماؤں کو "اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ حقیقی سلامتی صرف حقیقی امن کے قیام سے ہی ممکن ہے"۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل اقوامِ متحدہ کی بالادستی کو مستقل چیلنج کرتا آرہا ہے۔