کیا آپ ملالہ کو جانتے ہیں؟ سوال کچھ عجیب سا ہے، کیونکہ ملالہ کا نام تو پاکستان کے بعض سیاسی موضوعات کی طرح سوشل میڈیا کےان گرما گرم مباحثوں کا حصہ ہے،جس کی بے انتہا تشہیر ہوتی ہے۔
گذشتہ روز جب عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سےکم عمرترین نوبل انعام یافتہ دختر پاکستان ملالہ یوسفزئی کے نام کا دنیا بھر میں چرچا ہوا تو پاکستان میں رہنے والے ایسے لوگوں کے اوپر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جنھیں ملالہ کی ذات پر انگلیاں اٹھانے کا موقع چاہیئے ہوتا ہے۔
پاکستان میں امن کا نوبل انعام جیتنے پر ملالہ کے چاہنے والوں کی طرف سے خوشیاں منائی گئی ہیں۔ پاکستان اور عالمی قیادتوں کی جانب سے ملالہ کونوبل انعام حاصل کرنے پر مبارکباد بھیجی گئی۔ لیکن، افسوس کل کی طرح آج اس خوشی کے موقع پر بھی کچھ لوگ ملالہ کی کامیابی کو اسی شک کی عینک لگا کر یہ پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر ملالہ نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے جس پر اسے دنیا کے اعلی ترین اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ شاید ایسے لوگ ملالہ کے مقصد کی اہمیت سے پوری طرح آگا ہ نہیں ہیں، کیونکہ پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی بڑی سوچ کی حامل ایک چھوٹی سی لڑکی ملالہ یوسفزئی پاکستان میں تعلیم عام کرنے کا خواب دیکھتی ہے یہی اس کا مقصد اور مشن ہے۔
ایسے لوگوں کی نظریں آج بھی ملالہ کو شک کی نظر سے دیکھ رہی ہیں کہ کب اور کہاں ملالہ کے قدم لڑکھڑاتے ہیں اور وہ اپنے مغربی دنیا کے رنگ ڈھنگ اپنانا شروع کرتی ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کل کی ملالہ اور آج کی ملالہ میں کتنا فرق ہے؟
کیا ملالہ نے اب تک کہیں بھی پاکستان کے لیے کوئی رسوائی کا کام انجام دیا ہے ؟
کیا ملالہ کا لباس اور اس کا قول و فعل آج بھی وہی نہیں ہے جو کل تھا؟
یا پھر انھیں یہ بات منظور نہیں ہےکہ 2012 میں شدت پسندوں کے قاتلانہ حملے کے بعد ملالہ کو پاکستان میں ہی کیوں نہیں مرنے دیا گیا؟ اسے علاج کے لیے بیرون ملک کیوں لایا گیا؟ بلکہ کچھ لوگ تو ملالہ کی اس نئی زندگی اور اس کے سکھ چین اور کامیابیوں سے بھی شاکی دکھائی دیتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وادی سوات کی بہادر بیٹی نے صحت یابی کے بعد دوبارہ اپنے وطن جانے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا۔ شاید ایسے لوگوں کا تقدیر پر یقین نہیں ہےکہ برے وقت کے بعد اچھا وقت بھی آتا ہےجو اپنے دامن میں سکھ چین اور کامیابی سب ہی کچھ سمیٹ کر لاتا ہے اتنی عزت اور مرتبہ پانا ملالہ کا مقدر تھا جو اسے اسی طرح سےملنا تھا۔
ملالہ پاکستان کے شہری علاقوں کی طرح پسماندہ علاقوں کے بچے اور بچیوں کے ہاتھ میں قلم اور پیپر دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے وہ چاہتی ہے کہ گاؤں اور دیہاتوں کی لڑکیاں بھی بغیر کسی ڈر اور خوف کہ تعلیم حاصل کریں شہروں کی طرح گاؤں کی لڑکیاں بھی ڈاکٹر ،انجینئر اور وکالت کریں لیکن ملالہ کا یہ بے لوث مشن ان لوگوں کے لیےشاید اتنا ہم نہیں ہے جن کے بچے اور بچیاں بغیر کسی ڈر اور خوف کےاچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ؟
سوات میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم کا حق مانگنا اس کا جرم بنا دیا گیا جس پر اسےموت کی سزا سنائی گئی لیکن موت کے خوف کو مات دے کر ملالہ نے نئی زندگی پائی تو کیا اسے اپنی اس نئی زندگی کی بھی قدر نہیں ہے وہ اب تک اپنے مشن کے لیےثابت قدم کیوں ہے ملالہ کی جرات اور بہادری نے اسے آج دنیا کے لیے ایک ہیرو بنا دیا ہے تو کیا ایسے لوگ ایک لڑکی کے بلند حوصلے اور اس کی استقامت کو پسپا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کو اچھی طرح سے جاننے کا دعوی کرنے والوں کو یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے کہ مغربی دنیا کی جانب سے جس طرح ملالہ کے مقصد کو حمایت مل رہی ہے یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے اور شاید یہ وہ الزام ہے جو ملالہ کا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔
امن اور تعلیم عام کرنے کی اس کی چھوٹی سی جدوجہد میں آج ملالہ کا خون بھی شامل ہے مگر اس کی یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی آج ترقی یافتہ قومیں اس کے خواب کی تکمیل کرنے میں اس کے ساتھ کھڑی ہیں کیونکہ یہ جنگ ہتھیار کے بدلے قلم کی ہے۔
ملالہ یوسفزئی کا نام آج تعلیم کی عالمی تحریک کی پہچان بن چکا ہے۔
ایسے میں، ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر میں تعلیم عام کرنے کے مشن میں ملالہ کا ساتھ دیا جائے، کیونکہ روشن اور تعلیمافتہ پاکستان کی تعمیر کے لیے صرف ایک ملالہ نہیں بلکہ اس جیسی بہت سی پڑھی لکھی بیٹیوں کی ضرورت ہوگی۔