دنیا کے سب سے پہلے صنعتی شہر مانچسٹر کے سالانہ میگا میلے کو برطانیہ کا ایک بڑا ایشیائی میلہ کہا جاتا ہے جہاں برصغیر کی تہذیب و تمدن اور ثقافتی اقدار کے رنگ جا با جا بکھرے نظر آتے ہیں۔
دو روزہ رنگا رنگ میلہ ہفتہ کی دوپہر سے شروع ہو کر اتوار کی شب نو بجے تک جاری رہا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی میلے میں ہر رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی، جن میں خاص طور پر خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ تھی۔
مانچسٹر کو ایک کثیرالثقافتی معاشرے کی عمدہ مثال کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا یہاں تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد آباد ہے، خاص طور پر اس شہر میں پاکستانی بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔
'پلیٹ فیلڈ پارک' میں اس میلے کا اہتمام 'مانچسٹر میلہ ایگزیکٹو کمیٹی' کی جانب سے کیا گیا تھا۔ یہ پانچ ممالک کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ تھا، جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ برصغیر کی فن و ثقافت اور دستکاری سے متعلق میلے کی تقریبات کا مقصد مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والی مقامی برادریوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے اور انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
میگا میلےکے ایک سروے کے مطابق مانچسٹر کے سالانہ میلے میں گذشتہ سال 70 ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔
برصغیر کی رنگا رنگ ثقافتوں کی ایک جھلک پارک کی سجاوٹ اور تزئین و آرائش میں بھی نمایاں طور پر دکھائی دی، یہاں موسیقی کے ساز بانسری کا ایک قد آور نمونہ آویزاں تھا،جو دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کررہا تھا۔
میلے میں ثقافت، آرٹ، موسیقی اور رقص سے تعلق رکھنے والے فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جنھوں نے موسیقاروں اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ مل کر لوک دھنوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا، اور حاضرین سے خوب دل کھول کر داد وصول کی۔
میلے کے مرکزی اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکاروں اور پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان گلوکاروں نے میلے کے شرکاء کو صبح سے شام تک اپنے سحر میں گرفتار کئے رکھا۔
میلے کے پہلے روز سورج پورے دن چمکتا رہا اور لوگوں نے اس خوبصورت موسم میں اپنے پسندیدہ گلوکاروں جے کدان، ممزی، زیک نائٹ،کھیزا، سونی جنجوعہ، فائیو ون فائیو، ایس کے ون، شازیہ جج اور نوین کندرا کی خوبصورت گائیکی کا خوب لطف اٹھایا جبکہ دیگر فنکاروں کی بھی گائیکی نے بھی خوب رنگ جمایا۔
میلے میں حسب روایت لوک فنکاروں کی پرفارمنس کے ساتھ چائے اور لوازمات سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک علحیدہ خیمہ گاہ موجود تھی، میلہ کا یہ حصہ خاص طور پر میلے کے شرکاء کے لیے دلچسپی کا باعث بنا رہا، جہاں باصلاحیت میزبان مارکس نثار نے اپنے شگفتہ لہجے اور خوبصورت گفتار سےحاضرین کو لمحہ بھر کے لیے بور نہیں ہونے دیا۔
میلے کا ایک خاص حصہ برصغیر سے تعلق رکھنے والی اقوام کی دستکاری اور آرٹ کی ورکشاپوں پر مشتمل ایک مرکز تھا، جہاں بچوں کی بڑی تعداد نے مہندی، پینٹنگ، رنگولی، کارڈ سازی اور چہرے کی پینٹنگ کی ورک شاپ میں مفت خدمات سے فائدہ اٹھایا۔
میلے میں موجود ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری عدنان نے بتایا کہ یہ سالانہ میلہ تفریح طبع کا ایک بہترین موقع ہوتا ہے، جس کا ان کے خاندان کو پورا سال انتظار رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں آکر ہمیں بالکل پاکستان جیسا احساس ہوتا ہے اور یہاں آنا ہمارے بچوں کے لیے بھی ایک مختلف تجربہ ہوتا ہے۔
میلے میں کھانے پپینے کے شوقین افراد کے لیے طرح طرح کے لذیذ پکوانوں کے اسٹال لگائے گئے تھے جن میں روایتی پکوان بریانی، کباب، چنے، پکوڑوں کے اسٹال پر لمبی لمبی قطاروں لگی تھیں، جبکہ ادھر جلیبی، گولا گنڈا، قلفی، فالودہ اور کشمیری چائے کے اسٹال کے اردگرد بھی لوگوں کا بڑا مجمع تھا۔
میلے میں بچوں کی سیر وتفریح کی غرض سے یہاں جھولے، باونسنگ جمپر، واٹر سلائیڈز، رولر کوسٹر رائیڈ اور طرح طرح کے جھولے لگائے گئے تھے، اس کے علاوہ خواتین کے لیے روایتی پاکستانی ملبوسات اور آرائشی زیورات کے اسٹال بھی سجائے گئے تھے۔
میلے کے دوسرے روز اتوار کو اگرچہ بارش کی وجہ سے میلے کی گہما کہمی پہلے روز جیسی نہیں تھی، لیکن بارش کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے اس یادگار میلے کی اختتامی تقریب میں شرکت کی، اس روز میلے کی پچھلی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کبڈی کے شوقین حضرات کے لیے کبڈی کا مقابلہ بھِی رکھا گیا تھا۔