رسائی کے لنکس

قوالی کے فن میں یکتا :مقبول صابری انتقال کرگئے


قوالی کے فن میں یکتا :مقبول صابری انتقال کرگئے
قوالی کے فن میں یکتا :مقبول صابری انتقال کرگئے

قوالی کے فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے مقبول صابری بدھ کی شام انتقال کرگئے۔ انہیں دل کا عارضہ لاحق تھا ۔وہ ان دنوں جنوبی افریقہ میں مقیم تھے اوروہیں سے موت کا فرشتہ انہیں اپنے ساتھ ملک عدم لے گیا۔

مقبول صابری اپنے بڑے بھائی غلام فرید صابری کے ساتھ مل کر قوالی گایا کرتے تھے۔ 70 اور 80 کی دہائی ان کے عروج کا سنہری دور تھا۔

وہ جس قدر پاکستان میں مقبول تھے، بھارت اور دنیا بھر کے ان تمام ممالک میں بھی اتنا ہی شہرت رکھتے تھے جہاں اردو گائیگی سنی اور سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کے کئی حکمران بھی دونوں بھائیوں کے فن کو پسندکرنے والوں میں شامل رہے ہیں۔ انہیں اپنی خدمات کی عوض بے شمار ایوارڈ ملے۔

مقبول صابری بھارتی ریاست پنجاب کے ایک چھوٹے سے مگر نہایت مشہور شہر کلیانہ میں 1945ءمیں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام عنایت حسین تھاجو موسیقی و گائیکی کے استاد شمار ہوتے تھے اور انہیں سننے کے لئے لوگ دور دور سے آتے تھے۔

عنایت حسین کی آرزو تھی کہ ان کی اولاد بھی فن موسیقی میں انہی کی طرح شہرت حاصل کرے۔اسی خیال کے پیش نظر انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بذات خود موسیقی کے فن میں مشاق بنایا اور شروع سے خود ہی اس کی تربیت دی۔

عنایت حسین کی آرزو پوری ہوئی اور ان کے دونوں سپوت غلام فرید صابری اور مقبول صابری نے فن موسیقی میں خوب نام کمایا بلکہ اپنے لئے قوالی مشکل شعبے کا انتخاب کیا۔ دونوں بھائیوں نے اپنی پہلی لائیو پرفارمنس اپنے آبائی شہر کلیانہ میں ہی صرف گیارہ سال کی عمر میں دی۔ یہ موقع تھا پیر مبارک شاہ کےعرس کا جس میں بڑی تعداد میں عقیت مندشریک تھے۔

اور اس کے بعد جلد ہی اپنی شاندار پرفارمنس اورفن کے باعث ان کا شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اسی دوران پاکستان وجود میں آگیا اور مقبول صابری اپنے بھائیوں اور دیگر عزیزوں کے ہمراہ پاکستان چلے آئے۔

70 اور 80 کے عشرے میں غلام فرید صابری اور مقبول صابری کا قوالی میں ہم پلہ کوئی نہیں رہا تھا اورانہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیاتھا۔ اسی دور میں ان کی بے شمار کیسٹس ، ریکارڈز اور البم ریلیز ہوئیں ۔اس دور میں بھی ان کی کیسٹس کی ریکارڈ سیل ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔

وہ نعتیہ قوالی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ جب اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تو سننے والوں پر گویا سحر طاری ہوجاتا تھا ۔ ان کے کلام کی بدولت بڑی تعداد میں غیر مسلم اسلام کی طرف راغب ہوئے ۔ ان کے دعووں کے مطابق کئی درجن افراد ان کا کلام سن کر دائرہ اسلام میں بھی داخل ہوئے۔

بدھ 21 ستمبر ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا لیکن کہتے ہیں کہ فنکارکا جسم مرتا فن نہیں ۔ مقبول صابری کا بھی فن زندہ ہے اور جنوبی ایشیاء میں جب جب قوالی کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں مقبول صابری اور غلام فرید صابری کا نام سب سے پہلے درج ہوگا۔

XS
SM
MD
LG