فن قوالی کے ماہر اور دنیا کے بے شمار ممالک میں اپنی آواز کا جادو جگانے والے مقبول احمد صابری ہفتے کو کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں ہمیشہ کی نیند سوگئے۔ ان کا جسد جنوبی افریقہ سے ہفتے کی دوپہر کراچی پہنچا۔
بدھ 21 ستمبر کی شام حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث ان کا انتقال ہوگیاتھا۔
کراچی ائیرپورٹ سے ان کا تابوت لیاقت آباد میں ان کے آبائی مکان لایا گیا جہاں ان کے رشتے داروں نے ان کا آخری دیدار کیا۔ ان کی نماز جنازہ میں کئی سیاسی و سماجی شخصیات سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔
مقبول صابری دل کے عارضے کے ساتھ ساتھ ذیابیطیس کے مرض میں بھی مبتلا تھے اور علاج کی غرض سے دو ماہ سے جنوبی افریقہ میں مقیم تھے لیکن وقت نے انہیں مزید مہلت نہ دی۔
'صابری برادرز' کا سنہری دور
اسی کی دہائی میں مقبول احمد صابری اور ان کے بڑے بھائی غلام فرید صابری قوالی کے حوالے سے دنیا بھر میں انتہائی معتبر تسلیم کئے جاتے تھے۔ان کی مشہور قوالیوں میں" بھر دو جھولی میری" ، "تاج دار حرم" اور" خواجہ کی دیوانی" کو سدا بہار سمجھی جاتی ہیں۔
قوالیوں کی بدولت انہی نہ صرف " صابری برادران " کی حیثیت سے دنیا پھر میں منفرد پہچان ملی بلکہ انہیں "پرائڈ آف پرفامنس "سے بھی نوازا گیا۔تاہم صابری برادران کی جوڑی کو 5 اپریل 1994ء کو اس وقت ناقابل تلافی نقصان غلام فرید صابری کے اچانک انتقال سے ہوا۔
غلام فرید صابری 1930ء کو بھارت کے صوبے مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ چھ برس کی عمر میں ہی غلام فرید صابری نے اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم لینا شروع کر دی۔ انہیں بچپن ہی سے قوالی کا شوق تھا،1946ء میں پہلی دفعہ غلام فرید صابری نے مبارک شاہ کے عرس پر ہزاروں لوگوں کے سامنے قوالی گائی۔ ان کے قوالی کے انداز کو بہت پسند کیا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد غلام فرید صابری کا خاندان بھی ہجرت کرکے کراچی آباد ہو گیا۔ غلام فرید صابری نے 1956ء میں اپنے بھائی مقبول صابری کے ساتھ قوالی شروع کی۔ دونوں بھائیوں کا پہلا البم"میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا" 1958ء میں ریلیز ہوا اور دنیا بھر میں پھیل گیا۔ 1976ء میں انہوں نے امریکی شہر نیویارک میں لائیو کنسرٹ کیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔یہ سمندر پار ان کا پہلا کنسرٹ تھا۔
مقبولیت کی بنا پرصابری برادرزکی قوالیاں پاکستانی اور بھارتی فلموں کا حصہ بھی بنیں۔صابری برادران کی انفرادیت یہ تھی کہ اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی، سرائیکی اور سندھی میں بھی ان کی قوالیاں موجود ہیں۔