افغانستان اور پاکستان کے بارے میں صدر اوباما کے خصوصی نمائندے، مارک گروسمین نے کہا ہے کہ اتوار کی صبح نیٹو سربراہ اجلاس سے قبل شکاگو میں امریکی وزیرخارجہ ہلری کلنٹن اور صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات اہمیت کی حامل ہے، جس میں ’تمام باہمی امور کا جائزہ لیا گیا‘۔
اُنھوں نے یہ بات اتوار کےروز’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔
مارک گروسمین کا کہنا تھا کہ ملاقات میں باہمی تعلقات کو فروغ دینے کےطریقوں پر دھیان مرکوز رہا۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ پاکستانی پارلیمان کی قرارداد کو قدر کی نگاہ سےدیکھتا ہے، اور اسےباہمی تعلقات کو آگے بڑھانے کا بنیادی اصول خیال کرتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی پارلیمان نے اقتداراعلیٰ کے مالک ایک مضبوط پاکستان کی بات کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کےعلاقے کو دوسرے ملکوں پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیئے۔
انسداد دہشت گردی کے بارے میں مارک گروسمین نے کہا کہ ہلری کلنٹن اور صدر زرداری کی ملاقات میں اس ضمن میں مشترکہ کوششوں پر گفتگو ہوئی، اور مفاہمت کے عمل کے مستقبل سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔
اُنھوں نے کہا کہ بعدازاں پاکستان اور افغانستان کے صدور کی ملاقات ہوئی، جوخصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
اُن سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے صدور کی سہ فریقی ملاقات اس لیے نہیں ہوپائی کہ نیٹو سپلائی لائن کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ مارک گروسمین نے کہا کہ یہ کہنا درست نہ ہوگا، دراصل ایک خیال تھا کہ اجلاس کے دوران شاید یہ ملاقات ممکن ہو، لیکن یاد رہے کہ اِس سلسلے میں صدر کرزئی اور صدر زرداری کی ملاقات ہوئی ہے، جو خاصی اہم ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو مفاہمت کے سلسلے میں بات کرتے رہنا چاہیئے۔ اُن کے بقول، ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے صدورنے اس متعلق بات کی ہے۔
مارک گروسمین نے وزیر اعظم گیلانی کی طرف سے کچھ عرصہ قبل دیے گئےایک بیان کا ذکر کیا جس میں طالبان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ مذاکرات میں شریک ہوں۔