ہماری زمین پر حیات سے متعلق استعمال ہونے والے ایک سائنسی آلے کو مريخ پر یہ جاننے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ آیا سرخ سیارے پر اس وقت یا ماضی میں کبھی حیات موجود تھی۔
خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے تیار کردہ اس آلے کو BILI کہا جاتا ہے۔ جو ریڈار کی طرح کا م کرتا ہے، لیکن وہ کسی مخصوص ماحول میں پائے جانے والے اجزا کے تجزیے کے لیے ریڈیائی لہر وں کی بجائے روشنی کا استعمال کرتا ہے۔
ناسا کے ایک سائنس دان برانیمر بلیگو جیوک اس آلے کے تخلیق کار ہیں ۔ا ن کا کہنا ہے کہ ناسا نے اس سے پہلے یہ آلہ سیاروں کی تحقیق کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا۔ اگر ناسا اسے استعمال کرتا ہے تو وہ اسے استعمال کرنے والا پہلا ادارہ ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر کسی سیارے پر زندگی کی کوئی علامت موجود ہو تو یہ آلہ فضا میں موجود گرد کے تجزیے سے اس کا کھوج لگا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ آلہ کئی سو میٹر کی دوری سے فضا میں موجود نامیاتی مرکبات کی قلیل ترین مقدار کا بھی کھوج لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ آلہ اس لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے کیونکہ مٹی اور چٹانوں کی تحقیق اور تجزیے کے لیے مريخ کی سطح پر اتاری جانے والے سائنسی آلات کی گاڑی بعض مقامات اور ڈھلوانوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا تجزیہ نہیں کر سکتی۔
بلیگو جیوک کا کہنا تھا کہ وہ اگلے مرحلے میں BILI کو مزید چھوٹے سائز کا بنائیں گے تاکہ وہ مختلف اقسام کے نامیاتی سالموں کا کھوج لگا سکے جو مريخ کی فضا میں موجود ہو سکتے ہیں۔