مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبِ علم مشال خان کے توہینِ مذہب کے الزام میں قتل کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔
شعبۂ ابلاع عامہ کے طالبِ علم مشال خان کو 13 اپریل 2017ء کو ساتھی طلبہ اور یونیورسٹی ملازمین نے توہینِ مذہب کا الزام لگا کر سرِ عام قتل کردیا تھا۔
اس واقعے کی اندرون اور بیرونِ ملک شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ لیکن قتل کو دو سال گزرنے کے باوجود تعلیمی اداروں میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اب تک مناسب اقدامات نہیں ہوسکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے بعد ضلع چارسدہ کے علاقے شب قدر میں ایک نجی تعلیمی ادارے کے پرنسپل کو شاگرد نے توہینِ مذہب کا الزام لگا کر قتل کردیا جب کہ بہاولپور میں کالج کے استاد کو طالب علم نے اسی قسم کے الزام پر چھریوں کے وار کر کے مار دیا۔
عبدالولی خان یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر سہیل احمد خان کا کہنا ہے کہ مشال خان سانحے کا یونیورسٹی کے انتظامی اور مالی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس واقعے کا تعلق ایک مخصوص بیانیے سے تھا جس کے اثرات ان کے بقول ابھی تک موجود ہیں۔
'ریاست کو بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا'
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر سہیل کا کہنا تھا کہ سابق ادوار میں ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی گئی اور منظم انداز سے ایک مخصوص بیانیے کی ترویج کی گئی جس کے سبب تعلیمی اداروں میں بھی مذہبی انتہاپسندی فروغ ملا۔
وہ کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں یہ سوچ نہ صرف ابھی تک موجود ہے بلکہ اس میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر سہیل کے خیال میں طلبہ یونینز اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے نتیجے میں تعلیمی اداروں میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے مذہبی انتہا پسند پر کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی کے تدریسی حالات کے بارے میں ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ مشال خان واقعے کے بعد عبدالولی خان یونیورسٹی کے تمام تدریسی شعبے خفیہ اداروں کے زیرِ نگرانی ہیں اور طلبہ میں اتنا خوف و ہراس پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے جائز مطالبات اور مسائل پر بھی آواز نہیں اٹھا سکتے۔
ان کے بقول چند ہفتے قبل شعبہ فارمیسی کے طلبہ نے اپنے بعض مطالبات کے حق میں مظاہرہ کیا تھا۔ مظاہرے میں شامل ایک طالبِ علم کوخفیہ ادارے کے اہلکاروں نے حراست میں لے لیا اور اتنا مارا پیٹا کہ وہ کئی دنوں تک اسپتال میں زیرِ علاج رہا۔
ڈاکٹر سہیل سمجھتے ہیں کہ مثبت تبدیلی تب آئے گی جب ریاستی سطح پر انتہا پسندی کے رجحانات پر قابو پانے کے لیے بیانیہ تبدیل ہوگا۔
نصاب میں تبدیلیوں کا مطالبہ
ماہرِ تعلیم اور باچا خان فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر خادم حسین بھی ڈاکٹر سہیل کے مؤقف سے متفق ہیں۔
ان کے بقول انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ریاستی بیانیے میں مثبت تبدیلی لائی جائے اور تعلیمی نصاب میں بھی مناسب اصلاحات پر توجہ دی جائے۔
مشال خان کے والد اقبال خان کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کی قربانی کے بعد کم از کم اتنی تبدیلی آئی ہے کہ لوگوں میں سیاسی شعور پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشال خان واقعہ بہت بڑا سانحہ تھا جس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی سے امن اور استحکام کو لاحق خطرات کے بارے میں آگہی بڑھی۔
'انتہا پسندوں پر دباؤ بڑھا ہے'
مشال خان قتل کیس میں وکیلِ استغاثہ فضل خان ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ مقدمے کی پیروی اور نامزد ملزمان کو عدالتی کٹہرے میں لانے سے انتہاپسند نظریات کے حامل لوگوں پر دباؤ تو بڑھا ہے، لیکن اس کے باوجود بہاولپور اور شب قدر کے واقعات حکومتی اداروں اور حکمرانوں کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔
فضل خان نے کہا کہ مشال قتل کیس سے بری ہونے اور رہائی پانے والے ملزمان کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی جا چکی ہیں اور کوشش ہے کہ تمام ملزمان کو سخت سے سخت سزائیں دلائی جائیں۔ ان کے بقول اس طرح انتہا پسند نظریات پر مبنی رجحان پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
مشال کے قتل کا سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا تھا اور ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات کی سماعت انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مقدمے میں مجموعی طور پر 61 ملزمان نامزد کیے گئے تھے جن میں سے ایک کو سزائے موت، سات کو عمر قید اور 25 کو چار، چار سال قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ اٹھائیس ملزمان کو عدالت نے بری کردیا تھا۔
سزائیں پانے والے ملزمان نے سزا میں تحفیف جب کہ مشال خان کے والد کے وکلا نے ملزمان کی سزاؤں میں اضافے اور بری اور رہائی پانے والے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی ہوئی ہیں۔