افغان امور کے ماہر اور سینئیر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’’سیاسی طور پر مولانا سمیع الحق کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت العلما اسلام (س) کا دائرہٴ کار بہت محدود ہے اور اس جماعت کے پاس اسمبلی میں بھی کوئی نشست نہیں ہے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’اگر وہ سیاسی طور پر اہم ہوتے اور ان کا کوئی بڑا سیاسی کردار ہوتا تو ان کے مخالفین کو ضرور فائدہ ہوتا اور حامیوں کو نقصان اٹھانا پڑتا‘‘۔
لیکن، اُنھوں نے کہا ہے کہ مولانا کی ’’مذہبی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک بڑے مذہبی ادارے کے سربراہ تھے اور ان کے والد بھی ایک اہم مذہبی شخصیت تھے۔ اور مدرسے سے وابستہ لوگ مولانا سمیع الحق کو اپنا استاد مانتے تھے۔ مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ اسلامی اور جہادی تنظیموں کا ساتھ ضرور دیا ہے۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’’مولانا سمیع الحق کے قتل سے ملک میں پہلے سے جاری احتجاج اور تناؤ کی کیفیت سے توجہ کچھ دیر کے لیے ضرور ہٹے گی۔ لیکن، پاکستان میں اس وقت ایک سیاسی بحران کی سی کیفیت ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’پاکستانی حکومت کے بارے میں اس وقت یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت جو فیصلے کر رہی ہے ان میں سوچ بچار کم ہے اور حکومتی نمائندے حالات کو جلد سلجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اور، وہ خود اپنے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں اور حکومت کو یہ تاثر دور کرنا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہوگا اگر حکومت کو دیگر سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل ہو۔‘‘
مولانا سمیع الحق کی شخصیت اور افغان امن عمل میں ان کے کردار پر بات کرتے ہوئے، رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’فادر آف طالبان‘ صرف مولانا سمیع الحق ہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان سمیت کئی مذہبی رہنماؤں کو کہا گیا ہے۔ ’’مگر، حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان اس بات کو ماننے کو تیار نہیں۔ اور ان کا بیانیہ مختلف ہے۔ اور، وہ کہتے ہیں کہ تحریک شروع کرنے کا سہرا دراصل ملا محمد عمر کے سر ہے، جنہوں نے افغانستان کے صوبہٴ قندھار میں اس تحریک کا آغاز کیا تھا۔ افغان طالبان کا مولانا سمیع الحق سے استاد اور شاگرد کے درمیان ہونے والا رشتہ ضرور ہو سکتا ہے۔ مگر طالبان اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ ان کی بات مانیں۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی نے مزید کہا کہ ’’افغان امن عمل کے لیے ہونے والے مذاکرات میں مولانا سمیع الحق کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکے‘‘۔
تاہم، ’’پاکستانی طالبان کی نمائندگی انہوں نے ضرور کی اور ان کے لیے نواز شریف حکومت سے مولانا نے مذکرات بھی کیے۔ مگر، وہ بھی ناکام ہو گئے۔ اس لیے میں یہی کہوں گا کہ ان کی سیاسی حیثیت بہت کمزور تھی‘‘۔
مولانا سمیع الحق کے قتل کے محرکات پر بات کرتے ہوئے، رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ ’’یہ قتل مولانا کے اپنے گھر میں چاقو کے وار کر کے کیا گیا ہے۔ یہ ایک اذیت ناک موت ہے؛ اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک انتقامی کارروائی ہے‘‘۔